نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    اقبال ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق-علامہ اقبال

    ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق اسی...
  2. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح و تنقید "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن"

    غم کے ماروں کو ستاروں پہ ہنسی آتی ہے بے سہاروں کو سہاروں پہ ہنسی آتی ہے اپنی تنہائیوں پہ یوں ہنسی آتی ہے ہمیں جیسے دریا کو کناروں پہ ہنسی آتی ہے چشمِ پُر نم کی قسم حسنِ تصوّر کی قسم اب تو نظروں کو نظاروں پہ ہنسی آتی ہے "غمِ یاراں غمِ دنیا غمِ عقبی" کی قسم اب ہمیں اپنے حصاروں پہ ہنسی آتی ہے...
  3. فرحان محمد خان

    بشیر بدر تم مجھے رات کا جلتا ہوا جنگل کر دو-بشیر بدر

    آگ لہرا کے چل رہے ہو اِسے آنچل کر دو تم مجھے رات کا جلتا ہوا جنگل کر دو چاند سا مصرع اکیلا ہے مرے کاغذپر چھت پہ آجاؤ مرا شعر مکمل کر دو میں تمہیں دل کی سیاست کا ہنر دیتا ہوں اب اسے دھوپ بنا دو مجھے بادل کر دو تم مجھے چھوڑکے جاؤ گے تو مر جاؤں گا یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کر دو اپنے آنگن...
  4. فرحان محمد خان

    غالب خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجئے-مرزا غالب

    خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجئے تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجئے بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجئے تب جاکے ان سے شکوۀ بے داد کیجئے حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجئے بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبشِ نگاه اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجئے کچھ دردمند منتظرِ انقلاب...
  5. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے-شکیب جلالی

    اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے اُس کو مذکور کہیں شکوہ محسن میں نہیں میری خودار روایات سے دُکھ پہنچا ہے دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ...
  6. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا-شکیب جلالی

    ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون پتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا اب کون جائے...
  7. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں - شکیب جلالی

    عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا ہے دریچہ، نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں عہدو پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن توڑ دیتی ہے زرو سیم کی جھنکار یہاں ننگ و ناموس کے بکتے ہُوئے انمول رتن لب و رُخسار کے سجتے ہُوئے بازار یہاں سر خئی...
  8. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی مرے افسانہِء بے نام کی تحریر ظالم ہے-ساغر صدیقی

    یہ دنیا ہے یہاں ہر لمہِء تقدیر ظالم ہے مرے افسانہِء بے نام کی تحریر ظالم ہے مصور کا قلم رنگینیوں میں ڈوب کر ابھرا تصور مسکرا کر کہہ گیا تصویر ظالم ہے غمِ ہستی کی زنجروں سے انساں کو کہاں فرصت کبھی حالات ظالم ہیں کبھی تدبیر ظالم ہے چراغِ آرزو کو اک سہارا دے ہی جاتی ہے یہاں ڈھلتے ہوئے سورج کی...
  9. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح و تنقید "لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں"

    مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن "لے کر یہ محبت کے آزار کدھر جائیں" اے عشق ترے آخر بیمار کدھر جائیں یہ آگ کی بستی ہے یہ شہر ہے شعلوں کا اس شہر کہ ناداں گُل و گلزار کدھر جائیں یہ اہلِ خرد کی رُت اور ہم ہیں جنوں والے بے خود سے جنوں والے بے کار کدھر جائیں یہ کرب جو سینے میں دل نام کا رکھتے ہیں...
  10. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی- ساغر صدیقی

    یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی کریں گے تاریخِ مے مرتب یہی پریشاں سے لوگ ساقی اگر یہ اندھیر اور کچھ دن رہا تو ایسا ضرور ہو گا الجھ پڑیں گے بنامِ حالات زلفِ جاناں سے لوگ ساقی لگا کوئی ضرب اس ادا سے کہ ٹوٹ جائیں دلوں کی مُہریں تری قسم تنگ آگئے ہیں سکوتِ پنہاں سے لوگ ساقی...
  11. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻏﻢ ﮐﺎ ﮔﮩﻮﺍﺭﮦ- ساغر صدیقی

    ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺴﺘﻘﻞ ﻏﻢ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﻏﻢ ﮐﺎ ﮔﮩﻮﺍﺭﮦ جو آنسو رنگ لے آئے وہی دامن کا شہ پارہ مرا ذوقِ خریداری ہے اک جنسِ گراں مایہ کبھی پھولوں کا شیدائی کبھی کانٹوں کا بنجارہ جہاں منصب عطا ہوتے ہیں بے فکر و فراست بھی وہاں ہر جستجو جھوٹی وہاں ہر عزم ناکارہ بسا اوقات چھو لیتی ہے دامن کبریائی کا تمہاری جنبش ابرُو...
  12. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں-ساغر صدیقی

    جب گلستاں میں بہاروں کے قدم آتے ہیں یاد بھولے ہوئے یاروں کے کرم آتے ہیں لوگ جس بزم سے آتے ہیں ستارے لے کر ہم اسی بزم سے بادیدہء نم آتے ہیں میں وہ اک رند خرابات ہوں میخانے میں میرے سجدے کے لئے ساغرِ جم آتے ہیں اب ملاقات میں وہ گرمیِ جذبات کہاں اب تو رکھنے وہ محبت کا بھرم آتے ہیں قربِ...
  13. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی منزلِ غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں-ساغر صدیقی

    منزلِ غم کی فضاؤں سے لپٹ کر رو لوں تیرے دامن کی ہواؤں سے لپٹ کر رو لوں جامِ مے پینے سے پہلے مرا جی چاہتا ہے بکھری زلفوں کی گھٹاؤں سے لپٹ کر رو لوں زرد غنچوں کی نگاہوں میں نگاہیں ڈالوں سرخ پھولوں کی قباؤں سے لپٹ کر رو لوں آنے والے ترے رستے میں بچھاؤں آنکھیں جانے والے ترے پاؤں سے لپٹ کر رو لوں...
  14. فرحان محمد خان

    برائے تنقید و اصلاح "مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن"

    انکارِ محبت ہی آغازِ محبت ہے اصرار بہت کرنا اندازِ محبت ہے الفاظ بہت سے ہیں خاموشی کے دامن میں سب جانتے چُپ رہنا اک رازِ محبت ہے احباب کو اب تک بھی معلوم نہیں شاید کے آنسو فقط آنسو آوازِ محبت ہے یہ آہ و فغاں اپنے سینے سے جو اُٹھتی ہے کیوں لوگ یہ کہتے ہیں کے سازِ محبت ہے یہ درد غنیمت ہے جو...
  15. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی اور شکیب جلالی کی ایک زمین میں غزلیں

    یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں کل...
  16. فرحان محمد خان

    شکیب جلالی ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں -شکیب جلالی

    شکیب کی ایک غزل ساغر صدیقی کی زمین میں ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں جن پہ بےلوث محبت بھی بجا ناز کرے ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں خود ہی آتی ہے مسرّت انہیں مژدہ دینے جو ہو اک غم کے...
  17. فرحان محمد خان

    غالب ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور -مرزا اسد اللہ خان غالب

    ہے بسکہ ہر اک اُن کے اشارے میں نشاں اور کرتے ہیں محبّت تو گزرتا ہے گماں اور یا رب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے مری بات دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے لے آئیں...
  18. فرحان محمد خان

    غالب مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے - مرزا اسد اللہ خان غالب

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفس مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے پھر پرسشِ جراحتِ...
  19. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی "وقارِ یزداں نہ حسنِ انساں، ضمیرِ عالم بدل گیا ہے " ساغر صدیقی

    بہارِ سر و سمن فسردہ، گلوں کی نگہت تڑپ رہی ہے قدم قدم پر الم کدے ہیں، نگارِ عشرت تڑپ رہی ہے شعور کی مشعلیں جلائیں، اُٹھو ستاروں کے ساز چھیڑیں کرن کرن کی حسین مورت بحالِ ظلمت تڑپ رہی ہے کبھی شبستاں کے رہنے والو! غریب کی جھونپڑی بھی دیکھو خزاں کے پتوں کی جھانجھنوں میں کسی کی عصمت تڑپ رہی ہے...
  20. فرحان محمد خان

    غزل برائے اصلاح "مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن"

    یوں تیری یاد کب سے مناتا رہا ہوں میں اپنے ہی شعر خود سے چھپاتا رہا ہوں میں حیرت ہے تیرے بعد مجھے تب ہوا تھا کیا آواز دے کے خود کو بھلاتا رہا ہوں میں احساس کی حدود سے کب سے نکل کیا تنہائی میں خدا کو بھی پاتا رہا ہوں میں کھوٹے جو سکے ہیں تو کوئی بات ہی نہیں کاغذ کی کشتیاں بھی چلاتا رہا...
Top