شکیب جلالی ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں -شکیب جلالی

شکیب کی ایک غزل ساغر صدیقی کی زمین میں
ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں

کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں

جن پہ بےلوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں

خود ہی آتی ہے مسرّت انہیں مژدہ دینے
جو ہو اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں

بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خود دار نظر آتے ہیں

جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جُنوں کے لیے شہکار نظر آتے ہیں

کسبِ ثروت ہی شکیبؔ آج کا فن ہے شاید
طالبِ ذر مجھے فنکار نظر آتے ہیں

شکیب جلالی
جون 1950ء
 
آخری تدوین:
Top