غزل برائے اصلاح و تنقید "فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن"

غم کے ماروں کو ستاروں پہ ہنسی آتی ہے
بے سہاروں کو سہاروں پہ ہنسی آتی ہے

اپنی تنہائیوں پہ یوں ہنسی آتی ہے ہمیں
جیسے دریا کو کناروں پہ ہنسی آتی ہے

چشمِ پُر نم کی قسم حسنِ تصوّر کی قسم
اب تو نظروں کو نظاروں پہ ہنسی آتی ہے

"غمِ یاراں غمِ دنیا غمِ عقبی" کی قسم
اب ہمیں اپنے حصاروں پہ ہنسی آتی ہے

اہلِ دل، اہلِ وفا ،اہلِ نظر، اہلِ عشق
دلِ بے تاب کو چاروں پہ ہنسی آتی ہے

چند لمحوں کی ملاقات ہو تم سے جیسے
دلِ ناداں کو بہاروں پہ ہنسی آتی ہے
 
آخری تدوین:

عباد اللہ

محفلین
بھیا اس غزل سے ہم کو @راحیل فاروق کی ایک غزل یاد آگئی جو غلبا کچھ اس طرح تھی
غم دنیا غم عقبی غم جاناں غم ذات
ہم نشیں آج تو چاروں پہ ہنسی آنے لگی
اگر نادانستگی میں ان کے شعر کا حلیہ بگاڑ دیا ہو تو معذرت
آپ کے تمام اشعار کی ان کے اشعار سے حیرت انگیز مماثلت ہے
:):):)
 
بھیا اس غزل سے ہم کو @راحیل فاروق کی ایک غزل یاد آگئی جو غلبا کچھ اس طرح تھی
غم دنیا غم عقبی غم جاناں غم ذات
ہم نشیں آج تو چاروں پہ ہنسی آنے لگی
اگر نادانستگی میں ان کے شعر کا حلیہ بگاڑ دیا ہو تو معذرت
آپ کے تمام اشعار کی ان کے اشعار سے حیرت انگیز مماثلت ہے
:):):)
نہیں جناب مماثلت کیسے آپ سر راحیل کی غزل پوری پڑھ لو ویسا میں نے اخگر مشتاق رحیم آبادی کی زمین میں لکھائی ہے
خود نظاروں پہ نظاروں کو ہنسی آتی ہے - غزل
جہاں میں نے ان کی کوئی چیز استعمال کی ہے اس کا "" میں لکھا ہے
 
آخری تدوین:
یہ لیجئے جناب سر راحیل فاروق کی غزل
غم کے ماروں کو ستاروں پہ ہنسی آنے لگی
رہ نشینوں کو سواروں پہ ہنسی آنے لگی

چمکے آنسو تو تبسم کا گماں ہونے لگا
آنکھ روئی تو نظاروں پہ ہنسی آنے لگی

اس قدر لوگ ہنسے چار طرف سے کہ معاً
ایک پاگل کو ہزاروں پہ ہنسی آنے لگی

غمِ یاراں غمِ دنیا غمِ عقبیٰ غمِ ذات
چارہ گر آج تو چاروں پہ ہنسی آنے لگی

ہوئے جاتے ہیں زیادہ ہی کچھ اب رمز شناس
عقل مندوں کو اشاروں پہ ہنسی آنے لگی

باغبانو تمھیں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن
اف خزاؤں کو بہاروں پہ ہنسی آنے لگی

قطرہ ہوں پر مجھے راحیلؔ خدا جانے کیوں
قعرِ دریا پہ کناروں پہ ہنسی آنے لگی
میری غزل کی زمین بھی اور ہے
 
یہ مصرع گڑبڑ لگا رہا ہے

حصاروں
سر کیا سر راحیل فاروق کی غزل کے مماثلت زیادہ ہے ؟
غم کے ماروں کو ستاروں پہ ہنسی آنے لگی
رہ نشینوں کو سواروں پہ ہنسی آنے لگی

چمکے آنسو تو تبسم کا گماں ہونے لگا
آنکھ روئی تو نظاروں پہ ہنسی آنے لگی

اس قدر لوگ ہنسے چار طرف سے کہ معاً
ایک پاگل کو ہزاروں پہ ہنسی آنے لگی

غمِ یاراں غمِ دنیا غمِ عقبیٰ غمِ ذات
چارہ گر آج تو چاروں پہ ہنسی آنے لگی

ہوئے جاتے ہیں زیادہ ہی کچھ اب رمز شناس
عقل مندوں کو اشاروں پہ ہنسی آنے لگی

باغبانو تمھیں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن
اف خزاؤں کو بہاروں پہ ہنسی آنے لگی

قطرہ ہوں پر مجھے راحیلؔ خدا جانے کیوں
قعرِ دریا پہ کناروں پہ ہنسی آنے لگی
 

La Alma

لائبریرین
اچھی کوشش ہے.
سر محمد ریحان قریشی اگر مجھے سے کچھ کڑبڑ ہو گی ہو تو رہنمائی فرمائیں

سر محمد وارث اگر مجھے سے کچھ کڑبڑ ہو گی ہو تو رہنمائی فرمائیں

سر راحیل فاروق اگر مجھے سے کچھ کڑبڑ ہو گی ہو تو رہنمائی فرمائیں
گڑبڑ تو خاص نہیں لیکن آپ کافی گڑبڑا گئے ہیں.
 
سر کیا سر راحیل فاروق کی غزل کے مماثلت زیادہ ہے ؟
غم کے ماروں کو ستاروں پہ ہنسی آنے لگی
رہ نشینوں کو سواروں پہ ہنسی آنے لگی

چمکے آنسو تو تبسم کا گماں ہونے لگا
آنکھ روئی تو نظاروں پہ ہنسی آنے لگی

اس قدر لوگ ہنسے چار طرف سے کہ معاً
ایک پاگل کو ہزاروں پہ ہنسی آنے لگی

غمِ یاراں غمِ دنیا غمِ عقبیٰ غمِ ذات
چارہ گر آج تو چاروں پہ ہنسی آنے لگی

ہوئے جاتے ہیں زیادہ ہی کچھ اب رمز شناس
عقل مندوں کو اشاروں پہ ہنسی آنے لگی

باغبانو تمھیں ہم کچھ نہیں کہتے لیکن
اف خزاؤں کو بہاروں پہ ہنسی آنے لگی

قطرہ ہوں پر مجھے راحیلؔ خدا جانے کیوں
قعرِ دریا پہ کناروں پہ ہنسی آنے لگی
آپ کے پہلے شعر کا پہلا مصرع
تیسرا شعر

جب آپ کی غزل پہلی نظر میں پڑھی تو یہی سمجھا کہ ان کی زمین استعمال کی ہے۔
 
Top