ساغر صدیقی اور شکیب جلالی کی ایک زمین میں غزلیں

یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں

دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

کل جنہیں چُھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ بازار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی مِری دے گا ساغر
سب تمہارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں
ساغر صدیقی
---------------------------
شکیب جلالی
ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں

کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں

جن پہ بےلوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں

خود ہی آتی ہے مسرّت انہیں مژدہ دینے
جو ہو اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں

بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خود دار نظر آتے ہیں

جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جُنوں کے لیے شہکار نظر آتے ہیں

کسبِ ثروت ہی شکیبؔ آج کا فن ہے شاید
طالبِ ذر مجھے فنکار نظر آتے ہیں
شکیب جلالی
جون 1950ء​
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
مقبولیت کے لحاظ سے ساغر صدیقی کی غزل زیادہ مقبول ہے بہ نسبت شکیب جلالی کے۔ باقی اساتذہ شعراءکی آراء کا منتظر ہوں
سر الف عین
سر محمد وارث
سر فاتح
سر محمد ریحان قریشی
بجا کہا کہ ساغر کی غزل زیادہ مشہور ہے۔۔۔ اس کا کریڈٹ مسرت نذیر کو جاتا ہے۔ :)
میرا شمار "اساتذہ" میں تو ہوتا ہے لیکن اساتذہ شعرا میں نہیں۔ ;)
 
آخری تدوین:
اگرچہ میں استاد تو نہیں، پھر بھی رائے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ :)
مجھے ذاتی طور پر یہاں شکیب کے اشعار زیادہ پسند آئے ہیں۔ :)
ساغر بھی میرے پسندیدہ شعراء میں سے ہے۔
 
Top