نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    غزل : چہروں پہ بے کسی کے کتبے ٹھہر گئے ہیں - بیدلؔ حیدری

    غزل چہروں پہ بے کسی کے کتبے ٹھہر گئے ہیں طوفان چل رہا ہے تنکے ٹھہر گئے ہیں یہ کس کی داستاں نے توڑا ہے دم اچانگ یہ کس کے لب پہ آ کر فقرے ٹھہر گئے ہیں تیری صدا کی لہریں قوسِ قزح بنی ہیں یا ساز سے نکل کر نغمے ٹھہر گئے ہیں لہرا رہی ہیں دل پر کتنی لطیف یادیں بادِ صبا کے جیسے جھونکے ٹھہر گئے...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے - وحید اختر

    غزل دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے ہونٹ کھلتے ہیں تو اک بابِ ستم کھلتا ہے حرف انکار ہے کیوں نارِ جہنم کا حلیف صرف اقرار پہ کیوں بابِ ارم کھلتا ہے آبرو ہو نہ جو پیاری تو یہ دنیا ہے سخی ہاتھ پھیلاؤ تو یہ طرزِ کرم کھلتا ہے مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے دینے والوں کی امیری کا...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : سخن کے مطلعِ رنگیں پہ جو تنویر اُترے گی - وحید اختر

    غزل سخن کے مطلعِ رنگیں پہ جو تنویر اُترے گی زمیں کے دل میں بن کر نور کی تحریر اُترے گی چلا سورج کا رتھ رنگوں کی گرد اُڑنے لگی ہر سو شفق کے آئینوں میں صبح کی تصویر اُترے گی سنہرے نقرئی تیروں کی بارش ہے اندھیروں پر شعایوں کی عماری سے بھی اب تنویر اُترے گی زمیں کو دیکھتے ہیں لوگ خواب آلود...
  4. فرحان محمد خان

    رباعی :مقامِ اردو - فرحان محمد خان

    رباعی اے تجھ کو بتاتا ہوں مقامِ اردو ہے ایک دفینہ یہ کلامِ اردو "کیا اس کی صفت میں پھر کوئی بات کرے " میرؔ و غالبؔ ہیں جب غلامِ اردوفرحان محمد خان
  5. فرحان محمد خان

    ماہر القادری غزل : ساقی نے جسے مست نگاہوں سے پلا دی - ماہر القادری

    غزل ساقی نے جسے مست نگاہوں سے پلا دی اس کے لئے جنت ہے بیاباں ہو کہ وادی ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی ہاں ! پھر تو کہوں ہم نے تجھے دادِ وفا دی تم نے تو مرے دل کی کہانی ہی سنا دی اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی...
  6. فرحان محمد خان

    نظم : سرمایہ داری - ایم ڈی تاثیر

    سرمایہ داری ہندو کیا ہیں ؟ مسلم کیا ہیں ؟ جھوٹی ذاتیں پاتیں ہیں سب دولت کے الجھاؤ ہیں سب دولت کی باتیں ہیں مندر گرجے اونچے اونچے جگمگ جگمگ کرتے ہیں اور عبارت کرنے والے بُھوکے ننگے مرتے ہیں تعمیریں ہیں خیراتیں ہیں حج اور تیرتھ ہوتے ہیں یوں دامن سے خون کے دھبے دولت والے دھوتے ہیں مذہب کیا...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : خود کو قتل اپنے شراروں کو تہہِ دام کریں - وحید اختر

    غزل خود کو قتل اپنے شراروں کو تہہِ دام کریں لاج اندھیروں کی جو رکھنی ہے تو یہ کام کریں دہر کے کوئے ملامت میں ہُنر بھی ہے خطا دانش و فن سے ہوں آزاد تو کچھ کام کریں ہے یہی ایک مداوائے غمِ قحطِ رجال حُسن سے عشق کریں ، عشق کا اکرام کریں اونچے ایوانوں کی پستی میں نہ رسوا ہوں قدم خوب رویوں...
  8. فرحان محمد خان

    نظم: شکیب جلالی کے لیے - بیدل حیدری

    شکیب جلالی کے لیے خود کشی جرم سہی ، جرم بھی سنگین سہی لیکن اُفتاد کی حد بھی تو کوئی ہوتی ہے مرثیہ کیوں نہ لکھوں میں ترے مرنے پہ شکیب خود کشی تو نے نہیں روحِ ادب نے کی ہے منظرِ عام پہ کھلتے ہی تری موت کا راز کئی مجھ جیسے ادب دوست پریشاں ہوں گے جب تری موت کی تاریخ لکھی جائے گی کانپ جائے گا...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : تم جو نہیں ہو ، رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی - وحید اختر

    غزل تم جو نہیں ہو ، رہنے لگی گھر کے اندر تنہائی محفل سے بھی مجھ کو اٹھا لاتی ہے جا کر تنہائی کر کے وداع جو تم کو لوٹا ، یار احباب نے بتلایا پوچھ رہی تھی ملنے والوں سے میرا گھر تنہائی میں تو کتابوں کی دنیا میں خود کو بہلا لیتا ہوں میرے نام سے خط لکھتی ہے تم کو اکثر تنہائی اب سے پہلے اس کا...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : خاموشی محبت کی زباں ہے بھی نہیں بھی - وحید اختر

    غزل کیفیتِ دل تم پہ عیاں ہے بھی نہیں بھی خاموشی محبت کی زباں ہے بھی نہیں بھی بام و در و دیوار ہی کو گھر نہیں کہتے تم گھر میں نہیں ہو تو مکاں ہے بھی نہیں بھی دن آتا ہے شب ڈھلتی ہے کٹتا نہیں پر وقت ہجراں میں وہی دورِ زماں ہے بھی نہیں بھی اک گل کی ہوا لے کے چلی ہے سوئے صحرا فکرِ چمن اندیشۂ...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا - وحید اختر

    غزل جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا ہاتھ آیا جو یقیں وہم سراسر نکلا اک سفر دشتِ خرابی سے سرابوں تک ہے آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منظر نکلا کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا تھی تہی دست ہر اک شاخ خزاں تھی جب تک فصلِ گل آئی تو ہر شاخ سے خنجر...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : کس نے دروازے پہ لکھیں اس قدر خاموشیاں - م - م - مغل

    غزل کس نے دروازے پہ لکھیں اس قدر خاموشیاں دستکوں کے درمیاں بھی مختصر خاموشیاں جُنبشِ لب سے سوا مہمان داری ہے غبث کچھ نہیں پاسِ تواضع کو مگر خاموشیاں چہرگی کی راکنی پر آئنوں کا اژدہام سر پٹختی پھر رہی ہیں در بہ در خاموشیاں وحیّ بے نام و نسب کاغذ پہ اُتری ہی نہیں اس لیے لکھی نہیں ہیں...
  13. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی غزل : تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دُور سمجھ- رئیس امروہوی

    غزل تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دُور سمجھ آپ اپنے سے اُلجھ جائیں تو معذور سمجھ تو بھی تو وضعِ محبت سے ہے ناچار بہت اُن کو بھی قاعدۂ ناز سے مجبور سمجھ آبگینوں کی طبیعت کا تقاضا ہے شکست دل شکستہ ہو کہ ثابت ہوں انھیں چُور سمجھ ابھی اس راہ میں کچھ نقشِ قدم ملتے ہیں شہرِ جاناں کو ابھی دُور بہت...
  14. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی نظم : جانِ من - رئیس امروہوی

    جانِ من جانِ من مجھ سے بجا ہے یہ شکایت تیری کہ مرے شعر میں ماضی کا وہ انداز نہیں اے مجھے حافظؔ و خیّام بنانے والی اب مرے شعر میں سر مستیِ شیراز نہیں جو تری روح کے نغموں کو جگا دیتی ہے اب مرے پاس وہ رعنائیِ آواز نہیں جو ہم آہنگ ترے زمزمۂ ناز سے تھا اب مرے بس میں وہ آہنگ فسوں ساز نہیں کاش...
  15. فرحان محمد خان

    غزل : قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا - صفی لکھنوی

    غزل قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا ڈوبتے ہی دل میں پیکانِ ستم دل ہو گیا دل ہلاکِ حسرتِ بیدادِ قاتل ہو گیا شکر ، ناکامی میں بھی مقصود حاصل ہو گیا ہے وہی اک قطرۂ خوں اے غمِ طاقت گراز آںکھ میں آنسو بنا سینے میں جو دل ہو گیا اک نگاہِ مستِ ساقی نے بڑھا دی قدرِ جام آنکھ ملتے ہی دو...
  16. فرحان محمد خان

    غزل : قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا - صفی لکھنوی

    غزل قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا جہاں زمیں کا پتہ ہے نہ آسمانوں کا پھرا ہے رُخ مری جانب سے مہربانوں کا مزاج ہی نہیں ملتا مزاجدانوں کا بلندیوں کے لئے ہے عروج پستی سے زمین اوج دکھاتی ہے آسمانوں کا سنا جو قصۂ یوسف تو ہنس کے فرمایا ضرور اس میں تصرف ہے خوش بیانوں کا دل و دماغ کی رونق...
  17. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی ںظم : جسارت - رئیس امروہوی

    جسارت تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی اگر اس عہد کی تکمیل نہ کر سکتی تھیں دل کے احکام کی تعمیل نہ کر سکتی تھیں اپنے ماحول کو تبدیل نہ کر سکتی تھیں تم نے کیوں جراَتِ پیمانِ محبت کی تھی تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی میں نہ کہتا تھا کہ حالات سے مجبور ہو تم؟ رسم و دستور و روایات سے...
  18. فرحان محمد خان

    غزل : جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر - صفی لکھنوی

    غزل جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری...
  19. فرحان محمد خان

    غزل : دولت سے حسن حسن سے دولت خریدیئے - محبوب خزاں

    غزل جی چاہتا ہے کس نے کہا مت خریدیئے دولت سے حسن حسن سے دولت خریدیئے کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر تھوڑی بہت انھیں سے شرافت خریدیئے پھیلا ہے کاروبارِ مروت سو آپ بھی سب کی طرح کسی کی ضرورت خریدیئے اپنی پسند اپنے مقدر کی بات ہے صبحِ ازل سے شامِ قیامت خریدیئے گہرائیوں کی فکر میں کیوں مبتلا...
  20. فرحان محمد خان

    غزل : کسی نے یہ سبق تکوین کا آخر لکھا کیوں ہے - محب عارفی

    غزل کسی نے یہ سبق تکوین کا آخر لکھا کیوں ہے کہ جس کی ابتدا کیا ، متن کیوںکر ، انتہا کیوں ہے پسِ پردہ دھرا کیا ہے ، یہ ہے سب کھیل پردے کا تلاشِ قصر آئینہ نظر کا اقتضا کیوں ہے یہ صحرا بلبلوں کا ہے یہاں ہر خول خالی ہے خیالِ قیس ہر محمل کے پیچھے دوڑتا کیوں ہے بتِ معنیٰ سے فارغ ہے حرم کی تو...
Top