غزل : قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا - صفی لکھنوی

غزل
قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا
جہاں زمیں کا پتہ ہے نہ آسمانوں کا

پھرا ہے رُخ مری جانب سے مہربانوں کا
مزاج ہی نہیں ملتا مزاجدانوں کا

بلندیوں کے لئے ہے عروج پستی سے
زمین اوج دکھاتی ہے آسمانوں کا

سنا جو قصۂ یوسف تو ہنس کے فرمایا
ضرور اس میں تصرف ہے خوش بیانوں کا

دل و دماغ کی رونق نہیں ہے بے غم و فکر
فروغ دم سے مکینوں کے ہے مکانوں کا

چمن میں آئی خزاں گو بہار رخصت ہے
ریاض خاک میں ملتا ہے باغبانوں کا

سخن کی داد نہ ملنے کا غم نہیں جو صفیؔ
ملے نہ خاک میں انصاف نکتہ دانوں کا
صفیؔ لکھنوی
 
آخری تدوین:
Top