صفی لکھنوی

  1. سیما علی

    وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے ۔۔۔صفی لکھنؤی

    وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ہے ذرا...
  2. فرحان محمد خان

    لبریزِ حرارت ہے تنِ زار کی رگ رگ - صفیؔ لکھنوی

    لبریزِ حرارت ہے تنِ زار کی رگ رگ سرگرمِ تپش عشق کے بیمار کی رگ رگ آخر کو ہوئی نغمۂ منصور سے دیکھو لبریزِ انالحق رسن و دار کی رگ رگ جب شوخ طبیعت ہے ادا شوخ ، نظر شوخ کس طرح نہ پھڑکے بتِ عیار کی رگ رگ کہہ سے یہ صفیؔ کوئی مسیحا سے کہ جلد آ دم توڑ رہی ہے ترے بیمار کی رگ رگصفی لکھنوی
  3. فرحان محمد خان

    غزل : جو میرا عقیدہ ہے وہ زاہد کا نہیں ہے - صفی لکھنوی

    غزل جو میرا عقیدہ ہے وہ زاہد کا نہیں ہے رحمت میں اُسے شک ہے مگر مجھ کو یقیں ہے جس خاک سے پیدا ہوئے اُس خاک پہ آخر کیا حقِ تصرف تمہیں اے اہلِ زمیں ہے جب مرزعِ عقبیٰ ہے یہ دنیا تو سمجھ لو جنت بھی یہیں اور جہنم بھی یہیں ہے بے لوث محبت ہو جسے ملک سے اپنے وہ برہنہ پا خسر و بے تاج و نگیں ہے...
  4. فرحان محمد خان

    غزل : قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا - صفی لکھنوی

    غزل قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا ڈوبتے ہی دل میں پیکانِ ستم دل ہو گیا دل ہلاکِ حسرتِ بیدادِ قاتل ہو گیا شکر ، ناکامی میں بھی مقصود حاصل ہو گیا ہے وہی اک قطرۂ خوں اے غمِ طاقت گراز آںکھ میں آنسو بنا سینے میں جو دل ہو گیا اک نگاہِ مستِ ساقی نے بڑھا دی قدرِ جام آنکھ ملتے ہی دو...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا - صفی لکھنوی

    غزل قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا جہاں زمیں کا پتہ ہے نہ آسمانوں کا پھرا ہے رُخ مری جانب سے مہربانوں کا مزاج ہی نہیں ملتا مزاجدانوں کا بلندیوں کے لئے ہے عروج پستی سے زمین اوج دکھاتی ہے آسمانوں کا سنا جو قصۂ یوسف تو ہنس کے فرمایا ضرور اس میں تصرف ہے خوش بیانوں کا دل و دماغ کی رونق...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر - صفی لکھنوی

    غزل جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری...
  7. فرحان محمد خان

    غزل : مریضِ عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ - صفیؔ لکھنوی

    غزل مریضِ عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ ہوئے تلاشِ اثر میں لبِ دعا گستاخ حضورِ حسن ہے اے عشق یہ خلافِ ادب کہ ہو زبان ، دمِ عرضِ مدعا گستاخ حجابِ حسن ادب آموزِ عشق تھا پہلے وفورِ نشہ میں خود ہوگئی حیا گستاخ زمانے بھر سے تو بیگانگی کا ہے برتاؤ اداشناسوں سے ہے شوخیِ ادا گستاخ حریمِ ناز...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : حافظؔ ہی کے زمانے کا دورِ قمر ہے آج - صفیؔ لکھنوی

    غزل خافظؔ ہی کے زمانے کا دورِ قمر ہے آج برپا جو ہر مقام پر اک شور و شر ہے آج بویا گیا جو زہر یہاں ڈیڑھ سو برس ہر بِس کی گانٹھ اک شجرِ بارور ہے آج بغض و حسد کا باغ ترقی پذیر ہے کل پُور بھر جو پیڑ تھا وہ ہاتھ بھر ہے آج وہ اب کہاں فرشتۂ روحانیت جو تھا انساں ہر ایک نفس کے زیرِ اثر ہے آج...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : غافلو ! مرگِ مفاجات ہے انجامِ شراب - صفیؔ لکھنوی

    غزل غافلو ! مرگِ مفاجات ہے انجامِ شراب کیوں ہو اس درجہ اسیرِ ہوسِ جامِ شراب طائرِ ہوش کا پھسنا کوئی دشوار نہیں موجیں ساغر میں بچھائے ہوئے ہیں دامِ شراب بے پئے مست ہیں زُہاد ریا کار مگر رندِ مشرب میں فقط موردِ الزامِ شراب طاقِ نسیاں پہ چُنا شیشوں کو اُن کے میں نے جتنے میخانوں ہیں پائے...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : موت ہے زیست میں شرمندۂ احساں ہونا - صفی لکھنوی

    غزل موت ہے زیست میں شرمندۂ احساں ہونا زہر ہے درد کا منّت کشِ درماں ہونا تیری قسمت میں جو اے دل ہے پریشاں ہونا خاک ہونا بھی تو خاکِ درِ جاناں ہونا نیو کھودی گئی جس دن مرے کاشانے کی جوش زن خاک کے پردے سے تھا ویراں ہونا دلِ مایوس میں جب کوئی تمنا ہی نہیں عین ساماں ہے مرا بے سر و ساماں...
  11. فرحان محمد خان

    غزل : دل چُھٹ کے ہم سے حسرتِ منزل میں رہ گیا - صفی لکھنوی

    غزل دل چُھٹ کے ہم سے حسرتِ منزل میں رہ گیا تنہا غریب وادئِ مشکل میں رہ گیا سوئے رقیب کس نے کیا قصدِ ناتمام درد اُٹھتے اُٹھتے آج مرے دل میں رہ گیا بندش سے حُسن غیر مقید کو واسطہ دیوانہ دل پرستشِ منزل میں رہ گیا خاطر نشینِ ہمّتِ اہلِ کرم ہوا جو حرفِ مدّعا لبِ سائل میں رہ گیا دیوانگانِ عشق...
  12. فرحان محمد خان

    غزل : آہیں نہ کرے سوختہ جاں ہو نہیں سکتا - صفی لکھنوی

    غزل آہیں نہ کرے سوختہ جاں ہو نہیں سکتا اسپند نہ دے جل کے دھواں ہو نہیں سکتا جو حضرتِ ناصح کہیں وہ سب مجھے منظور مجبور ہوں اک صبر تو ہاں ہو نہیں سکتا پھرتی ہے مرے دیدۂ گریاں میں تری شکل گو نقش سرِ آبِ رواں ہو نہیں سکتا توبہ شکنی کا مجھے الزام گوارا خاطر شکنِ پیر مغاں ہو نہیں سکتا ہستی...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : سنتا ہوں ذکر تنگیِ کنجِ مزار کا - صفی لکھنوی

    سنتا ہوں ذکر تنگیِ کنجِ مزار کا کیونکر نبھے کا ساتھ دلِ بے قرار کا ہے موسمِ خزاں میں بھی عالم بہار کا گلدستہ ہے لحد میں دلِ داغدار کا کہہ دو ذرا فلک سے کہ دامن سمیٹ لے کرتا ہوں امتحاں نفسِ شعلہ بار کا ہم بیکسوں کی قبر کہاں برگِ گل کہاں صدقہ ہے سب یہ فیضِ نسیمِ بہار کا آنکھیں کئے ہوں...
  14. فرحان محمد خان

    غزل : اک اُداسی چھاگئی ہر سوختہ دل اُٹھ گیا - صفی لکھنوی

    اک اُداسی چھاگئی ہر سوختہ دل اُٹھ گیا شمعرو ! اُٹھنے سے تیرے حسنِ محفل اُٹھ گیا اب زیادہ سختیاں ہم سے نہ اُٹھیں گی فلک ! بارِ غم تھا جس قدر اُٹھنے کے قابل اُٹھ گیا ہائے جی بھر کے نہ دیکھا دل میں حسرت رہ گئی ہم تڑپتے رہ گئے ، پہلو سے قاتل اُٹھ گیا آمدِ صیّاد کی کچھ بندھ گئی ایسی ہوا شاخِ گل...
  15. فرحان محمد خان

    غزل : پاس بیٹھا تو رہا میرے مگر دُور رہا - صفی لکھنوی

    غزل بزم میں مجھ سے کشیدہ بتِ مغرور رہا پاس بیٹھا تو رہا میرے مگر دُور رہا نشۂ بادۂ توحید نہ اُترا سرِ دار نغمہ پردازِ اناالحق لبِ منصور رہا دمِ گلگشت نہ دامن سے کسی کے اُلجھا سب سے خارِ سرِ دیوار چمن دُور رہا تاب نظارہ نہ لائی نظرِ عشق مگر شعلۂ حُسنِ دل افروز سرِ طور رہا رشک اس بات...
  16. فرخ منظور

    غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا ۔ صفی لکھنوی

    غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے مدد اتنی اے بال و پرواز دینا نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو جب آواز دوں ، تم بھی آواز دینا کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سے صفی ٹوٹ کر دل کا...
Top