غزل : قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا - صفی لکھنوی

غزل
قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا
ڈوبتے ہی دل میں پیکانِ ستم دل ہو گیا

دل ہلاکِ حسرتِ بیدادِ قاتل ہو گیا
شکر ، ناکامی میں بھی مقصود حاصل ہو گیا

ہے وہی اک قطرۂ خوں اے غمِ طاقت گراز
آںکھ میں آنسو بنا سینے میں جو دل ہو گیا

اک نگاہِ مستِ ساقی نے بڑھا دی قدرِ جام
آنکھ ملتے ہی دو بالا رنگِ محفل ہو گیا

ہم تک ان کی بزم میں کس وقت پہنچا دورِ جام
خون سے لبریز جب پیمانۂ دل ہو گیا

کہہ رہی ہے شمع آنسو بھر کے ہنگامِ سحر
دیکھتے ہی دیکھتے کیا رنگِ محفل ہو گیا

ہے صفیؔ یہ محتسب کی پاک دامانی کا رنگ
بے تکلف ہو کے میخانے میں داخل ہو گیا
صفیؔ لکھنوی
 
Top