غزل : جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر - صفی لکھنوی

غزل
جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر
خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر

یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں
رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر

دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل
ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر

دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری
خبر دیتا ہے مجھ کو طرفِ خالی پُر صدا ہو کر

نہ سُلجھی ایک بھی گُتّھی ہزاروں ٹھوکریں کھائیں
رہے بیکار زندہ ناخنِ انگشتِ پا ہو کر

نظر حوروں پہ ہے اے زاہدِ مسجد نشیں تیری
ارے کمبخت یہ شاہد پرستی پارسا ہو کر

چلے جاؤ اسی جانب صفیؔ گر خلد جانا ہے
گیا ہے راستہ جنّت کو سیدھا کربلا ہو کر
صفیؔ لکھنوی
 
Top