غزل : آہیں نہ کرے سوختہ جاں ہو نہیں سکتا - صفی لکھنوی

غزل
آہیں نہ کرے سوختہ جاں ہو نہیں سکتا
اسپند نہ دے جل کے دھواں ہو نہیں سکتا

جو حضرتِ ناصح کہیں وہ سب مجھے منظور
مجبور ہوں اک صبر تو ہاں ہو نہیں سکتا

پھرتی ہے مرے دیدۂ گریاں میں تری شکل
گو نقش سرِ آبِ رواں ہو نہیں سکتا

توبہ شکنی کا مجھے الزام گوارا
خاطر شکنِ پیر مغاں ہو نہیں سکتا

ہستی ہو مٹا دے جو رہِ مہر و وفا میں
تا حشر وہ بے نام و نشاں ہو نہیں سکتا

ہے لطفِ سخن اور صفیؔ لطفِ زباں اور
ہر اہلِ سخن ، اہلِ زباں ہو نہیں سکتا​
صفیؔ لکھنوی
 
Top