نظم: شکیب جلالی کے لیے - بیدل حیدری

شکیب جلالی کے لیے
خود کشی جرم سہی ، جرم بھی سنگین سہی
لیکن اُفتاد کی حد بھی تو کوئی ہوتی ہے
مرثیہ کیوں نہ لکھوں میں ترے مرنے پہ شکیب
خود کشی تو نے نہیں روحِ ادب نے کی ہے

منظرِ عام پہ کھلتے ہی تری موت کا راز
کئی مجھ جیسے ادب دوست پریشاں ہوں گے
جب تری موت کی تاریخ لکھی جائے گی
کانپ جائے گا قلم ہاتھ بھی لرزاں ہوں گے

بے کسی کا تری جن جن کو خیال آئے گا
فن کی تکمیل کے انجام سے ڈر جائیں گے
جب بھی حالات کی افتاد میں شدت ہو گی
کئی شاعر تری تقلید میں مر جائیں گے
بیدلؔ حیدری
 
Top