غزل : دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے - وحید اختر

غزل
دفترِ لوح و قلم یا درِ غم کھلتا ہے
ہونٹ کھلتے ہیں تو اک بابِ ستم کھلتا ہے

حرف انکار ہے کیوں نارِ جہنم کا حلیف
صرف اقرار پہ کیوں بابِ ارم کھلتا ہے

آبرو ہو نہ جو پیاری تو یہ دنیا ہے سخی
ہاتھ پھیلاؤ تو یہ طرزِ کرم کھلتا ہے

مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے
دینے والوں کی امیری کا بھرم کھلتا ہے

بند آنکھیں رہیں میلا ہے لٹیروں کا لگا
اشک لٹ جاتے ہیں جب دیدۂ نم کھلتا ہے

جان دینے میں جو لذت ہے بچانے میں کہاں
دل کسی سے جو بندھے عقدۂ غم کھلتا ہے

ساتھ رہتا ہے سدا محفل و تنہائی میں
دلِ رم خوردہ مگر ہم سے بھی کم کھلتا ہے

دیکھو پستی سے تو ہر ایک بلندی ہے راز
جادۂ کوہ فقط زیرِ قدم کھلتا ہے

قرض ادا کرنا ہے جاں کا تو چلو مقتل میں
کھنچ گئی باگ بجا، طبل و عَلم کھلتا ہے
وحید اختر
7 اکتوبر 1973ء
 
Top