غزل : سخن کے مطلعِ رنگیں پہ جو تنویر اُترے گی - وحید اختر

غزل
سخن کے مطلعِ رنگیں پہ جو تنویر اُترے گی
زمیں کے دل میں بن کر نور کی تحریر اُترے گی

چلا سورج کا رتھ رنگوں کی گرد اُڑنے لگی ہر سو
شفق کے آئینوں میں صبح کی تصویر اُترے گی

سنہرے نقرئی تیروں کی بارش ہے اندھیروں پر
شعایوں کی عماری سے بھی اب تنویر اُترے گی

زمیں کو دیکھتے ہیں لوگ خواب آلود آنکھوں سے
کہ جیسے آسماں سے خواب کی تعبیر اُترے گی

بہت دلکش ہیں دنیا کی گرفتاری کے ساماں بھی
ہر اک شاخ و شجر سے پھول کی زنجیر اُترے گی

وہ گزریں گے جدھر سے بوئے آوارہ پتا دے گی
وہ ٹھیریں گے جہاں ، ہر سنگ پر تصویر اُترے گی

تمہارے خوں میں بُرّش ہے نہ ہے تاثیر نظروں کی
تمہارے واسطے کیوں عرش سے شمشیر اُترے گی

دعائے زود اثر کی راہ میں کیوں ہاتھ حائل ہیں
ابھی بجلی کی صورت کوند کر تاثیر اُترے گی

انہی اشکوں میں غرق آنکھوں کو چھولیں گی اگر کرنیں
انہیں آنکھوں میں اے قاتل تری تصویر اُترے گی

امیں ہیں جن کے پارہ ہائے قلب و برگ ہائے گُل
دلوں پر سنگ کے اس راز کی تفسیر اُترے گی

وحیدؔ انسان کوجو قتل کر دیتے ہیں ہنس ہنس کر
غزل سی شے دلوں میں اُن کے بن کر تیر اُترے گی
وحیدؔ اختر
6 اکتوبر 1973ء
 
Top