نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    اختر شیرانی غزل : آؤ بے پردہ تمہیں جلوۂ پنہاں کی قسم - اختر شیرانی

    غزل آؤ بے پردہ تمہیں جلوۂ پنہاں کی قسم ہم نہ چھیڑیں گے ، ہمیں زلفِ پریشاں کی قسم چاکِ داماں کی قسم ، چاکِ گریباں کی قسم ہنسے والے تجھے اس حالِ پریشاں کی قسم میرے ارمان سے واقف نہیں، شرمائیں گے آپ آپ کیوں کھاتے ہیں ناحق مرے ارماں کی قسم نیند آئی نہ کبھی تجھ سے بچھڑ کر ظالم اپنی آنکھوں کی قسم،...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : سنا احوال تیرے شہر کے معیار کیسے ہیں ؟ - اقبال ساجد

    غزل سنا احوال تیرے شہر کے معیار کیسے ہیں ؟ مکیں کیسے ہیں اس کے اور در و دیوار کیسے ہیں ؟ جہاں رہتا ہے تُو اس خاک کی تاثیر کیسی ہے ؟ پھلوں کا ذائقہ کیسا ہے اور اشجار کیسے ہیں ؟ اُبھر کر سامنے آتے ہیں یا چھپتے ہیں نظروں سے کہانی گھومتی جن پہ وہ کردار کیسے ہیں ؟ وہاں مزدور کی اُجرات ادھوری...
  3. فرحان محمد خان

    غزل : خوشی کے جشن میں رنج و ملال جیت گیا - اقبال ساجد

    غزل خوشی کے جشن میں رنج و ملال جیت گیا ہمارے چہرے کا ہر خدوخال جیت گیا حسین چہروں میں کس کا کمال جیت گیا یہ کون صاحبِ حسن و جمال جیت گیا نظر ملا نہ سکا مجھ سے وہ سرِ مسند پھر اس برس مرا جاہ و جلال جیت گیا مری دلیل سے بڑھ کر کوئی دلیل نہ تھی میں دے کے خود وہاں اپنی مثال جیت گیا شکست کھا...
  4. فرحان محمد خان

    فراق غزل : وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل میں کرتا ہوں - فراق گورکھپوری

    غزل وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکرِ غزل میں کرتا ہوں خود اپنے خیالوں کو ہمدم میں ہاتھ لگاتے ڈرتا ہوں بے جان لکیریں بول اٹھتی ہیں نقطے لَو دے اٹھتے ہیں اس نقش و نگارِ ہستی میں وہ رنگِ محبت بھرتا ہوں افسردہ و تیرہ فضاؤں میں گرمیِ پرِ جبریل ہوں میں سوتے سنسار کے سینہ میں لے کر آیات اترتا ہوں...
  5. فرحان محمد خان

    فراق غزل : غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات - فراقؔ گورکھپوری

    غزل غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات نوائے میرؔ سناؤ بڑی اُداس ہے رات نوائے درد میں اک زندگی تو ہوتی ہے نوائے درد سناؤ بڑی اُداس ہے رات اداسیوں کے جو ہم راز و ہم نفس تھے کبھی انھیں نہ دل سے بھلاؤ بڑی اُداس ہے رات جو ہو سکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو صنم کدے کی ہواؤ بڑی اُداس ہے رات...
  6. فرحان محمد خان

    نظم : کشمیر جل رہا ہے - فرحان محمد خان

    کشمیر جل رہا ہے آؤ کبھی تو دیکھو کشمیر کے چمن کو لوٹا گیا ہے کیسے دیکھو مرے وطن کو ترسے ہوئے ہیں انساں اُمید کی کرن کو کندھا کوئی تو دے دے اخلاص کے کفن کو کشمیر کا چمن اب لاشیں اُگل رہا ہے کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے توپوں کی گن گھرج ہے آہیں ہیں جس کا حاصل ہر سو ہے موت رقصاں ہر سو ہے...
  7. فرحان محمد خان

    ساغر صدیقی غزل : فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں - ساغر صدیقی

    غزل فریاد کے تقاضے ہیں نغمۂ سخن میں الفاظ سو گئے ہیں کاغذ کے پیرہن میں ہر آن ڈس رہی ہیں ماضی کی تلخ یادیں محسوس کر رہا ہوں بے چارگی وطن میں ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا سُوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں اے پاسبانِ گُلشن تجھ کو خبر نہیں ہے شعلے بھڑک رہے ہیں پھولوں کی انجمن میں اے...
  8. فرحان محمد خان

    ابن انشا غزل : اس شہر کے لوگوں پہ ختم سہی ، خوش طلعتی و گُل پیرہنی - ابنِ انشا

    غزل اس شہر کے لوگوں پہ ختم سہی ، خوش طلعتی و گُل پیرہنی مرے دل کی تو پیاس کبھی نہ بُجھی، مرے جی کی بات کبھی نہ بنی ابھی کل ہی بات ہے جانِ جہاں ، یہاں خیل کے خیل تھے شور کناں اب نعرۂ عشق نہ ضربِ فغاں ، گئے کون نگر وہ وفا کے دھنی کوئی اور بھی موردِ لطف ہوا ؟ ملی اہلِ ہوس کو ہوس کی سزا؟ ترے...
  9. فرحان محمد خان

    ابن انشا غزل : اے متوالی بدلی کالی ، رُوپ کا رس برساتی جا - ابنِ انشا

    غزل اے متوالی بدلی کالی ، رُوپ کا رس برساتی جا دل والوں کی اُجڑی کھیتی ، سُونا دھام بساتی جا دیوانوں کا روپ نہ دھاریں ؟ یا دھاریں؟ بتلاتی جا ماریں یا ہمیں اینٹ نہ ماریں ، لوگوں سے فرماتی جا اور بہت سے رشتے تیرے ، اور بہت سے تیرے نام آج تُو ایک ہمارے رشتے مُحبوبہ کہلاتی جا پُورے چاند کی...
  10. فرحان محمد خان

    ابن انشا غزل : راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا - ابنِ انشا

    غزل راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا جی کا داغ اُجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا شہروں کو ویران کرے گا اپنے آنچ کی تیزی سے ویرانوں میں مست البیلے وحشی پُھول کھلائے گا ہاں یہی شخص گداز و نازک ، ہونٹوں پر مسکان لیے اے دل اپنے ہاتھ لگاتے پتھر کا بن جائے گا دیدہ و دل نے درد کی اپنے...
  11. فرحان محمد خان

    ابن انشا غزل : کیسی بھی ہو اس شخص کی اوقات عزیزو - ابنِ انشا

    غزل کیسی بھی ہو اس شخص کی اوقات عزیزو انشاؔ کی غنیمت ہے ابھی ذات عزیزو اس شہرِ خرد میں کہاں ملتے ہیں دِوانے پیدا تو کرو اس سے ملاقات عزیزو پابندِ سلاسل ہے ، پہ زندان جہاں میں زندانِ جہاں کی سی کرے بات عزیزو ہے مفلس و محتاج پہ ہم نے تو نہ دیکھا اس کو بہ درِ قبلۂ حاجات عزیزو پایا ہے مگر خاک...
  12. فرحان محمد خان

    صبا اکبر آبادی غزل : ہم بھی تھے نظر والے ہم بھی تھے جواں صاحب - صبا اکبر آبادی

    غزل ہم بھی تھے نظر والے ہم بھی تھے جواں صاحب اب ذکرِ تمنا بھی دل پر ہے گراں صاحب اب کس کو بتائیں ہم اپنا غمِ جاں صاحب اب لوگ محبت کی دنیا میں کہاں صاحب کرتے تھے محبت ہم ہر طرح دل و جاں سے اب کس کی طرف دیکھیں اب دل ہے نہ جاں صاحب کیا نام و نشاں ہم سے اب پوچھتے ہو لوگو ہم لوگ ہیں دنیا میں...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : میں بھوک پہنوں ، میں بھوک اوڑھوں ، میں بھوک دیکھوں ، میں پیاس لکّھوں - اقبال ساجد

    غزل میں بھوک پہنوں ، میں بھوک اوڑھوں ، میں بھوک دیکھوں ، میں پیاس لکّھوں برہنہ جسموں کے واسطے میں خیال کاتُوں کپاس لکّھوں سسک سسک کر جو مر رہے ہیں ، میں اُن میں شامل ہوں اور پھر بھی کسی کے دل میں اُمید بوؤں ، کسی آنکھوں میں آس لکّھوں لہو کے قطرے بدن کے طائر ، ہر ایک خواہش ہے شاخ میری کسی...
  14. فرحان محمد خان

    غزل : پتہ کیسے چلے دنیا کو ، قصرِ دل کے جلنے کا - اقبال ساجد

    غزل پتہ کیسے چلے دنیا کو ، قصرِ دل کے جلنے کا دھوئیں کو راستہ ملتا نہیں باہر نکلنے کا بتا پھولوں کی مسند سے اتر کے تجھ پہ کیا گزری؟ مرا کیا میں تو عادی ہو گیا کانٹوں پہ چلنے کا مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا چڑھے گا زہر خوشبو کا اسے آہستہ...
  15. فرحان محمد خان

    غزل : تائیدِ زمستانِ فغاں تھے کہ نہیں تھے - م م مغل

    غزل تائیدِ زمستانِ فغاں تھے کہ نہیں تھے ہم صرفِ دعا کج کلہاں تھے کہ نہیں تھے آشوبِ مسافت سے گزرتے ہوئے ہم لوگ پایابِ سرِ ریگِ رواں تھے کہ نہیں تھے یہ عشق ہے جس نے ہمیں تجسیم کیا تھا قبل اس کے تخیّل تھے دھواں تھے کہ نہیں تھے سیرابیِ صحرائے تعلّق میں شب و روز ہم لوگ فقط نخلِ گماں تھے کہ نہیں...
  16. فرحان محمد خان

    غزل : جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں - اقبال ساجد

    غزل جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں دِکھاوے کے لئے خُوشحالیاں لکھتے ہیں کاغذ پر ہم اس دھرتی پہ ورنہ رزق کے چکّر میں رہتے ہیں ضرورت ہی لئے پھرتی ہے ہم کو دربدر ورنہ!! ہم اُن میں سے نہیں جو جستجوئے زر میں رہتے ہیں لہو سے جو اُٹھائی تھیں وہ...
  17. فرحان محمد خان

    غزل : ٹوٹیں گی جب طنابیں ، رہ جائیں گے سُکڑ کے - اقبال ساجد

    غزل ٹوٹیں گی جب طنابیں ، رہ جائیں گے سُکڑ کے کھنچ کر بڑے ہوئے ہیں ، یہ آدمی ربڑ کے ٹانگوں سے بانس باندھے ، شوقِ قد آوری میں بونے بھی راستوں میں چلنے لگے اکڑ کے یہ خواہشیں کہ جیسے آوارہ لڑکیاں ہوں ارماں ہیں شہرِ دل میں یا بدقماش لڑکے جذبے نکل گئے تھے سنیے کو کوٹھڑی سے مفرور قیدیوں کو ،...
  18. فرحان محمد خان

    غزل : دنیا کی کیا مجال ، چمن سے نکال دے - اقبال ساجد

    غزل دنیا کی کیا مجال ، چمن سے نکال دے مجھ کو حدودِ ملکِ سخن سے نکال دے طاقت تو ہے عدو میں مگر حوصلہ نہیں ورنہ مری زبان دہن سے نکال دے کیا سوچتا ہے ، کاٹ رگ و پے کی رسیاں اب خون کا عذاب بدن سے نکال دے ہاتھوں کو خود صلیب بنا ، اپنے واسطے موقع ہے زندگی کو گُھٹن سے نکال دے سورج کو سب کے...
  19. فرحان محمد خان

    غزل : کسی بھی شاخ سے خیرات گھر لے کر نہیں آئے - اقبال ساجد

    غزل کسی بھی شاخ سے خیرات گھر لے کر نہیں آئے گئے تھے باغ میں لیکن ثمر لے کر نہیں آئے ہم اپنے کاغذی پھولوں کی خاطر مفت کی خوشبو چمن میں لا تو سکتے تھے مگر لے کر نہیں آئے ہمارے شب زدوں کو قرض کی عادت نہ پڑ جائے اُجالوں کے نگر یوں سحر لے کر نہیں آئے مسافر تو مسافت کی نشانی ساتھ لائے ہیں...
  20. فرحان محمد خان

    غزل : کمانِ شب سے سحرکار تیر چھوڑ گیا - اقبال ساجد

    غزل کمانِ شب سے سحرکار تیر چھوڑ گیا ستارہ ٹوٹ کے روشن لکیر چھوڑ گیا اب اس میں زہر ملاؤ کہ تم مٹھاس پیو پہاڑ کاٹ کے وہ جوئے شیر چھوڑ گیا یہ اور بات کہ اس پر کوئی چلے نہ چلے لکیر چھوڑنے والا لکیر چھوڑ گیا پھر آج شہر کی سب سے بڑی حویلی میں تمام دن کی کمائی فقیر چھوڑ گیا زمین سنگ پہ وہ آئینہ...
Top