غزل : ٹوٹیں گی جب طنابیں ، رہ جائیں گے سُکڑ کے - اقبال ساجد

غزل
ٹوٹیں گی جب طنابیں ، رہ جائیں گے سُکڑ کے
کھنچ کر بڑے ہوئے ہیں ، یہ آدمی ربڑ کے

ٹانگوں سے بانس باندھے ، شوقِ قد آوری میں
بونے بھی راستوں میں چلنے لگے اکڑ کے

یہ خواہشیں کہ جیسے آوارہ لڑکیاں ہوں
ارماں ہیں شہرِ دل میں یا بدقماش لڑکے

جذبے نکل گئے تھے سنیے کو کوٹھڑی سے
مفرور قیدیوں کو ، لایا ہوں پھر پکڑ کے

چہرے کی سرجری پر میں کھا گیا تھا ، دھوکا
پہلے ہی مرحلے پہ ، وہ رہ گیا اُجڑ کے

اے دوست تجھ کو پا کر ، اتنی خوشی ہوئی
خوش جیسے ہو شکاری ، مچھلی کوئی پکڑ کے
اقبال ساجد
4 ستمبر 1972ء
 
Top