غزل : پتہ کیسے چلے دنیا کو ، قصرِ دل کے جلنے کا - اقبال ساجد

غزل
پتہ کیسے چلے دنیا کو ، قصرِ دل کے جلنے کا
دھوئیں کو راستہ ملتا نہیں باہر نکلنے کا

بتا پھولوں کی مسند سے اتر کے تجھ پہ کیا گزری؟
مرا کیا میں تو عادی ہو گیا کانٹوں پہ چلنے کا

مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن
اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا

چڑھے گا زہر خوشبو کا اسے آہستہ آہستہ
کبھی بھگتے گا وہ خمیازہ ، پھولوں کو مسلنے کا

مسلسل جاگنے کے بعد ، خواہش روٹھ جاتی ہے
چلن سیکھا ہے بچے کی طرح اس نے مچلنے کا

زرِ دل لے کے پہنچا تھا ، متاعِ جاں بھی کھو بیٹھا
دیا اس نے نہ موقع بھی کفِ افسوس ملنے کا

خوشی سے کون کرتا ہے غموں کی پرورش ساجدؔ
کسے ہے شوق لوگو ! درد کے سانچے میں ڈھلنے کا
اقبال ساجد
 
Top