فراق غزل : غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات - فراقؔ گورکھپوری

غزل
غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات
نوائے میرؔ سناؤ بڑی اُداس ہے رات

نوائے درد میں اک زندگی تو ہوتی ہے
نوائے درد سناؤ بڑی اُداس ہے رات

اداسیوں کے جو ہم راز و ہم نفس تھے کبھی
انھیں نہ دل سے بھلاؤ بڑی اُداس ہے رات

جو ہو سکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو
صنم کدے کی ہواؤ بڑی اُداس ہے رات

کہیں نہ تم سے تو پھر اورجا کے کس سے کہیں
سیاہ زلف کے سایو بڑی اُداس ہے رات

پڑا ہے سایۂ غم جب حیاتِ انساں پر
وہ داستاں بھی سناؤ بڑی اُداس ہے رات

ابھی تو ذکر سحر دوستو ہے دور کی بات
ابھی تو دیکھتے جاؤ بڑی اُداس ہے رات

سنا ہے پہلے بھی ایسے میں بجھ گئے ہیں چراغ
دلوں کی خیر مناؤ بڑی اُداس ہے رات

دیئے رہوں یونہی کچھ اور دیر ہاتھ میں ہاتھ
ابھی نہ پاس سے جاؤ بڑی اُداس ہے رات

کوئی شمار بھی رکھتی ہیں ظلمتوں کی تہیں
بتاؤ غم کی گھٹاؤ بڑی اُداس ہے رات

کوئی کہو یہ خیالوں سے اور خوابوں سے
دلوں سے دور نہ جاؤ بڑی اُداس ہے رات

کرو جو غور تو رد و قبول یکساں ہیں
دلوں سے نکلی دعاؤ بڑی اُداس ہے رات

یگانگی ہو کہ دیوانگی ہو سب دھوکا
سنو سب اپنے پرایو بڑی اُداس ہے رات

سمیٹ لو کہ بڑے کام کی ہے دولتِ غم
اسے یونہی نہ گنواؤ بڑی اُداس ہے رات

بسے ہوئے کسی کے جو لمسِ رنگیں سے
وہ بسترے نہ لگاؤ بڑی اُداس ہے رات

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انھیں سے کام چلاؤ بڑی اُداس ہے رات

لیے ہوئے ہیں جو بیتے غموں کے افسانے
وہ زندگی ہی بلاؤ بڑی اُداس ہے رات

بھرم نشاط و طرب کے نہ اور کُھل جائیں
مے و ایاغ بڑھاؤ بڑی اُداس ہے رات

دو آتشہ نہ بنا دے اسے نوائے فراقؔ
یہ سازِ غم نہ سناؤ بڑی اُداس ہے رات
فراق گورکھپوری
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
غزل
غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات
نوائے میرؔ سناؤ بڑی اُداس ہے رات

نوائے درد میں اک زندگی تو ہوتی ہے
نوائے درد سناؤ بڑی اُداس ہے رات

اداسیوں کے جو ہم راز و ہم نفس تھے کبھی
انھیں نہ دل سے بھلاؤ بڑی اُداس ہے رات

جو ہو سکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو
صنم کدے کی ہواؤ بڑی اُداس ہے رات

کہیں نہ تم سے تو پھر اورجا کے کس سے کہیں
سیاہ زلف کے سایو بڑی اُداس ہے رات

پڑا ہے سایۂ غم جب حیاتِ انساں پر
وہ داستاں بھی سناؤ بڑی اُداس ہے رات

ابھی تو ذکر سحر دوستو ہے دور کی بات
ابھی تو دیکھتے جاؤ بڑی اُداس ہے رات

سنا ہے پہلے بھی ایسے میں بجھ گئے ہیں چراغ
دلوں کی خیر مناؤ بڑی اُداس ہے رات

دیئے رہوں یونہی کچھ اور دیر ہاتھ میں ہاتھ
ابھی نہ پاس سے جاؤ بڑی اُداس ہے رات

کوئی شمار بھی رکھتی ہیں ظلمتوں کی تہیں
بتاؤ غم کی گھٹاؤ بڑی اُداس ہے رات

کوئی کہو یہ خیالوں سے اور خوابوں سے
دلوں سے دور نہ جاؤ بڑی اُداس ہے رات

کرو جو غور تو رد و قبول یکساں ہیں
دلوں سے نکلی دعاؤ بڑی اُداس ہے رات

یگانگی ہو کہ دیوانگی ہو سب دھوکا
سنو سب اپنے پرایو بڑی اُداس ہے رات

سمیٹ لو کہ بڑے کام کی ہے دولتِ غم
اسے یونہی نہ گنواؤ بڑی اُداس ہے رات

بسے ہوئے کسی کے جو لمسِ رنگیں سے
وہ بسترے نہ لگاؤ بڑی اُداس ہے رات

اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انھیں سے کام چلاؤ بڑی اُداس ہے رات

لیے ہوئے ہیں جو بیتے غموں کے افسانے
وہ زندگی ہی بلاؤ بڑی اُداس ہے رات

بھرم نشاط و طرب کے نہ اور کُھل جائیں
مے و ایاغ بڑھاؤ بڑی اُداس ہے رات

دو آتشہ نہ بنا دے اسے نوائے فراقؔ
یہ سازِ غم نہ سناؤ بڑی اُداس ہے رات

فراق گورکھپوری
فراق گورکھپوری کی یہ غزل شیئر کرنے کا بہت بہت شکریہ!!!
 
Top