ابن انشا غزل : کیسی بھی ہو اس شخص کی اوقات عزیزو - ابنِ انشا

غزل
کیسی بھی ہو اس شخص کی اوقات عزیزو
انشاؔ کی غنیمت ہے ابھی ذات عزیزو

اس شہرِ خرد میں کہاں ملتے ہیں دِوانے
پیدا تو کرو اس سے ملاقات عزیزو

پابندِ سلاسل ہے ، پہ زندان جہاں میں
زندانِ جہاں کی سی کرے بات عزیزو

ہے مفلس و محتاج پہ ہم نے تو نہ دیکھا
اس کو بہ درِ قبلۂ حاجات عزیزو

پایا ہے مگر خاک بسر اہلِ طلب میں
اُتری ہو جہاں حُسن کی بارات عزیزو

ق
اس شخص نے یوں کون سا میداں نہیں مارا
بس عشق کی بازی میں ہوئی مات عزیزو
اُس پہ رہا ہاتھ میں شیرازہ سخن کا
عشّاق کے مطلب کی غزلیات عزیزو
ابنِ انشا
 
Top