غزل : تائیدِ زمستانِ فغاں تھے کہ نہیں تھے - م م مغل

غزل
تائیدِ زمستانِ فغاں تھے کہ نہیں تھے
ہم صرفِ دعا کج کلہاں تھے کہ نہیں تھے

آشوبِ مسافت سے گزرتے ہوئے ہم لوگ
پایابِ سرِ ریگِ رواں تھے کہ نہیں تھے

یہ عشق ہے جس نے ہمیں تجسیم کیا تھا
قبل اس کے تخیّل تھے دھواں تھے کہ نہیں تھے

سیرابیِ صحرائے تعلّق میں شب و روز
ہم لوگ فقط نخلِ گماں تھے کہ نہیں تھے

تکیے سے ذرا دور پڑے تھے مرے کچھ خواب
تم مجھ کو بتاؤ تو وہاں تھے کہ نہیں تھے

کیا شرک نہیں ہے کہ مصلٰی تھا ہمارا
سلوٹ پہ اسی ذات و زماں تھے کہ نہیں تھے

کیا ہم نے نمازِ شبِ ہجراں نہ پڑھی تھی
بوسے میں مرے حرفِ اذاں تھے کہ نہیں تھے

ملبوس فقط میں ہی رہا ہوں تنِ تنہا
تم اپنے بدن سے بھی عیاں تھے کہ نہیں تھے

ناراضیِ عالم بھی تردد بھی روا تھا
ہم دونوں ہی یک قالب و جاں تھے کہ نہیں تھے

محمودؔ مغل ختم بس اب صوت و سخن ختم
تم لمسِ غزالِ دِگراں تھے کہ نہیں تھے
م م مغل
 
آخری تدوین:
Top