نظم : کشمیر جل رہا ہے - فرحان محمد خان

کشمیر جل رہا ہے
آؤ کبھی تو دیکھو کشمیر کے چمن کو
لوٹا گیا ہے کیسے دیکھو مرے وطن کو
ترسے ہوئے ہیں انساں اُمید کی کرن کو
کندھا کوئی تو دے دے اخلاص کے کفن کو
کشمیر کا چمن اب لاشیں اُگل رہا ہے
کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے

توپوں کی گن گھرج ہے آہیں ہیں جس کا حاصل
ہر سو ہے موت رقصاں ہر سو ہے رقصِ قاتل
ماؤں کی اجڑی گودیں بہنوں کے چاک آنچل
اے امن کے خداؤ کیوں ہو تم ان سے غافل
کشمیر کو بھی بدلو عالم بدل رہا ہے
کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے

باتیں ہیں یہ کہ کیجے حیوان سے محبت
بھولے ہوئے ہیں لیکن انسان سے محبت
اچھی نہیں ہے جنگی طوفان سے محبت
مہنگی پڑے گی ایسے نقصان سے محبت
پیروں میں ہو گا اک دن جو سر کچل رہا ہے
کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے

آزادی حق ہمارا آزادی حق ہمارا
کچھ بھی نہیں ہے ہم کو اس کے سوا گوارا
اے غاصبو نہیں کچھ کشمیر میں تمہارا
کشمیر تھا ہمارا کشمیر ہے ہمارا
دنیا میں کیا ہمیشہ کچھ بھی اٹل رہا ہے
کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے

ان حوصلوں کے آگے تلوار تیری اوقات
کیسے کٹیں گی سوچیں بے شک تو کاٹ لے ہاتھ
جھک کر نہیں چلیں گے جیسے بھی ہوں گے حالات
آئے گی صبح اک دن جائے گی رات بد ذات
جنت میں بھی کبھی کیا جنگ و جدل رہا ہے
کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے
فرحان محمد خان
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم فرحان بھائی -دردانگیز نظم ہے -ما شاء اللہ -

ایک کام کیجئے فونٹ کا سائز بڑا کر دیں -پڑھنے میں دقّت ہوتی ہے -
 

الف نظامی

لائبریرین
آزادی حق ہمارا آزادی حق ہمارا
کچھ بھی نہیں ہے ہم کو اس کے سوا گوارا
اے غاصبو نہیں کچھ کشمیر میں تمہارا
کشمیر تھا ہمارا کشمیر ہے ہمارا
دنیا میں کیا ہمیشہ کچھ بھی اٹل رہا ہے
کشمیر جل رہا تھا کشمیر جل رہا ہے
 
Top