نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    شاذ تمکنت قیدِ حیات و بندِ غم (نظم) ۔ شاذ تمکنت

    قیدِ حیات و بندِ غم (نظم) آخرِ شب کی اداسی نم فضاؤں کا سکوت زخم سے مہتاب کے رستا ہے کرنوں کا لہو دل کی وادی پر ہے بے موسم گھٹاؤں کا سکوت کاش کوئی غم گسار آئے مداراتیں کرے موم بتی کی پگھلتی روشنی کے کرب میں دکھ بھرے نغمے سنائے دکھ بھری باتیں کرے کوئی افسانہ کسی ٹوٹی ہوئی مضراب کا فصلِ گل...
  2. فرخ منظور

    میر جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا ۔ میر تقی میر

    غزل جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا کاو کاوِ مژۂ یار و دلِ زار و نزار گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا گرم رو راہِ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی بزدل ۔ مصطفیٰ زیدی

    بزدل آج اک افسروں کے حلقے میں ایک معتوب ماتحت آیا اپنے افکار کا حساب لیے اپنے ایمان کی کتاب لیے ماتحت کی ضعیف آنکھوں میں ایک بجھتی ہوئی ذہانت تھی افسروں کے لطیف لہجے میں قہر تھا، زہر تھا، خطابت تھی یہ ہر اک دن کا واقعہ، اس دن صرف اس اہمیت کا حامل تھا کہ شرافت کے زعم کے با وصف میں بھی ان افسروں...
  4. فرخ منظور

    میر لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں ۔ میر تقی میرؔ

    غزل لب ترے لعلِ ناب ہیں دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا رویئے کب تک پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف نقاب وے رخسار کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں تن کے معمورے میں یہی دل و چشم گھر تھے دو، سو خراب ہیں دونوں کچھ نہ پوچھو کہ آتشِ غم سے جگر و دل کباب ہیں دونوں سو جگہ اس کی آنکھیں...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اجالا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اجالا میری ہمدم، مرے خوابوں کی سنہری تعبیر مسکرا دے کہ مرے گھر میں اجالا ہو جائے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ جائے کرن بستر سے صبح کا وقت ذرا اور سہانا ہو جائے میرے نکھرے ہوئے گیتوں میں ترا جادو ہے میں نے معیارِ تصور سے بنایا ہے تجھے میری پروینِ تخیل، مری نسرینِ نگاہ میں نے تقدیس کے پھولوں سے سجایا ہے...
  6. فرخ منظور

    بہادر شاہ ظفر جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا ۔ بہادر شاہ ظفر

    جگر کے ٹکڑے ہوئے جل کے دل کباب ہوا یہ عشق جان کو میرے کوئی عذاب ہوا کیا جو قتل مجھے تم نے خوب کام کیا کہ میں عذاب سے چھوٹا تمہیں ثواب ہوا کبھی تو شیفتہ اس نے کہا کبھی شیدا غرض کہ روز نیا اک مجھے خطاب ہوا پیوں نہ رشک سے خوں کیونکہ دم بہ دم اپنا کہ ساتھ غیر کے وہ آج ہم شراب ہوا تمہارے لب کے...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی چارہ گرو ۔ مصطفیٰ زیدی

    چارہ گرو صنم کدوں میں چراغاں ہے مے کدوں کی طرف نگاہِ پیرِ مغاں کی سبیل جاری ہے ہر اک فسوں ہے، مگر بے اثر ہے چارہ گرو ادھر بھی تشنہ لبی مستقل نہیں جاتی یہاں بھی نشۂ نا معتبر ہے چارہ گرو میں ایسا جادۂ منزل گزشتہ ہوں جس کے ہر ایک سنگ میں زخمِ سفر ہے چارہ گرو ہر ایک دن کی طرح تھا وصال کا دن...
  8. فرخ منظور

    سراج الدین ظفر موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں ۔ سراج الدین ظفر

    موسمِ گل ترے انعام ابھی باقی ہیں شہر میں اور گل اندام ابھی باقی ہیں اور کھل جا کہ معارف کی گزر گاہوں میں پیچ اے زلفِ سیہ فام ابھی باقی ہیں اک سبو اور کہ لوحِ دلِ مے نوشاں پر کچھ نقوشِ سحر و شام ابھی باقی ہیں ٹھہر اے بادِ سحر اس گلِ نورستہ کے نام اور بھی شوق کے پیغام ابھی باقی ہیں کم...
  9. فرخ منظور

    میر جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا ۔ میر تقی میر

    جھمکے دکھا کے طُور کو جن نے جلا دیا آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا اس فتنے کو جگا کے پشیماں ہوئی نسیم کیا کیا عزیز لوگوں کو ان نے سلا دیا اب بھی دماغِ رفتہ ہمارا ہے عرش پر گو آسماں نے خاک میں ہم کو ملا دیا جانی نہ قدر اس گہرِ شب چراغ کی دل ریزۂ خزف کی طرح میں اٹھا دیا تقصیر جان دینے میں...
  10. فرخ منظور

    وہ آئی شامِ غم وقفِ بلا ہونے کا وقت آیا ۔ تلوک چند محروم

    وہ آئی شامِ غم وقفِ بلا ہونے کا وقت آیا تڑپنے لوٹنے کا دم فنا ہونے کا وقت آیا انہیں اپنی جفاؤں پر پشیمانی ہوئی آخر شریکِ ماتم‌ِ اہلِ وفا ہونے کا وقت آیا اداسی ہر سحر کہتی ہے مجھ سے بزمِ انجم کی اٹھ اے غم دیدہ اٹھ، محوِ بکا ہونے کا وقت آیا ترا ملنا کسے ملتا ہے ممنونِ مقدر ہوں مگر افسوس...
  11. فرخ منظور

    اسے کہنا کہ انڈے آگئے ہیں۔۔ اسحاق وردگ

    اسے کہنا کہ انڈے آگئے ہیں۔۔ اسے کہنا کہ انڈوں کی بدولت اب وطن نے آگے جانا ہے ترقی کی منازل پار کرنی ہیں اسے کہنا کہ اب میں سب کو چوزے پالنے کا فن سکھاؤں گا کہ سب نے گھر میں اب چوزے بسانے ہیں زیادہ تو نہیں بس تین سو چوزے ضروری ہیں اسے کہنا محبت چھوڑ دے اور اب خریدے تین سو چوزے کہ تبدیلی کے...
  12. فرخ منظور

    مکمل میری شادی ۔ سعادت حسن منٹو

    سعادت حسن منٹو کا اپنی شادی کے متعلق بیان میری شادی تحریر: سعادت حسن منٹو میں نے کبھی لکھا تھا کہ میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، تیسرا میرا افسانہ نگار بن جانے کا۔ آخری حادثہ چونکہ ابھی تک چلا جا رہا ہے، اس لیئے اس...
  13. فرخ منظور

    فیض اب کہاں رسم ہے لٹانے کی ۔ فیض صاحب کی ایک غیر مطبوعہ غزل

    فیض احمد فیضؔ کی ایک غیر مطبوعہ غزل اب کہاں رسم ہے لٹانے کی برکتیں تھیں شراب خانے کی کون ہے جس سے گفتگو کیجے جان دینے کی، دل لگانےکی بات چھیڑی تو اُٹھ گئی محفل اُن سے جو بات تھی بتانے کی ساز اٹھایا تو تھم گیا غمِ دل رہ گئی آرزو سنانے کی چاند پھر آج بھی نہیں نکلا کتنی حسرت تھی اُن کے آنے کی...
  14. فرخ منظور

    کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا ۔ سدرشن فاخر

    کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا اور کچھ تلخیِ حالات نے دل توڑ دیا ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا دل تو روتا رہے اور آنکھ سے آنسو نہ بہے عشق کی ایسی روایات نے دل توڑ دیا وہ مرے ہیں مجھے مل جائیں گے آ جائیں گے ایسے بے کار خیالات نے دل توڑ...
  15. فرخ منظور

    سوالِ صبحِ چمن ظلمتِ خزاں سے اٹھا ۔ صہبا اختر

    سوالِ صبحِ چمن ظلمتِ خزاں سے اٹھا یہ نفع کم تو نہیں ہے جو اس زیاں سے اٹھا سفینہ رانیِ مہتاب دیکھتا کوئی کہ اک تلاطمِ ضو جوئے کہکشاں سے اٹھا غبارِ ماہ کہ مقسوم تھا خلاؤں کا بکھر گیا تو ترے سنگِ آستاں سے اٹھا غمِ زمانہ ترے ناز کیا اٹھاؤں گا کہ نازِ دوست بھی کم مجھ سے سرگراں سے اٹھا مرے...
  16. فرخ منظور

    آتش نہ پوچھ حال مرا چوبِ خشک صحرا ہوں ۔ خواجہ حیدر علی آتش

    وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا جو پہنی پھولوں کی بَدّھی تو دردِ شانہ ہوا شہید و ناز و ادا کا ترے زمانہ ہوا اڑایا مہندی نے دل، چور کا بہانہ ہوا شب اس کے افعیِ گیسو کا جو فسانہ ہوا ہوا کچھ ایسی بندھی گُل چراغِ خانہ ہوا نہ زلفِ یار کا خاکہ بھی کر سکا مانی ہر ایک بال میں کیا کیا نہ شاخسانہ...
  17. فرخ منظور

    میر دل کھِلتا ہے واں صحبتِ رندانہ جہاں ہو ۔ میر تقی میر

    دل کھِلتا ہے واں صحبتِ رندانہ جہاں ہو میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو ان بکھرے ہوئے بالوں سے خاطر ہے پریشاں وے جمع ہوئے پر ہیں بلا شانہ جہاں ہو رہنے سے مرے پاس کے بدنام ہوئے تم اب جاکے رہو واں کہیں رسوا نہ جہاں ہو کچھ حال کہیں اپنا نہیں بے خودی تجھ کو غش آتا ہے لوگوں کو یہ افسانہ جہاں...
  18. فرخ منظور

    کس لیے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم ۔ نوح ناروی

    کس لیے پینے کو مانگیں بادہ و پیمانہ ہم ہوگئے بدمست ساقی دیکھ کر میخانہ ہم کیوں کہیں اپنے کو سوزِ عشق سے بیگانہ ہم تم جلاؤ ہم جلیں تم شمع ہو پروانہ ہم کچھ دنوں صحرا بہ صحرا اب اڑائیں خاک بھی مدتوں پھرتے رہے ویرانہ در ویرانہ ہم وہ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں فرماتے رہیں لیکن اپنے کو کہیں کس واسطے...
  19. فرخ منظور

    آتش پامال کیجیے انھیں رفتارِ ناز کا ۔ خواجہ حیدر علی آتش

    پامال کیجیے انھیں رفتارِ ناز کا طاؤس وکبک رکھتے ہیں دعویٰ نیاز کا لکھتا ہوں وصف ان مژہ ہائے دراز کا لیتا قلم سے کام ہوں میں نیزہ باز کا ساقی سمائے اس میں ہزاروں خُمِ شراب کشتیِ مے کو ظرف، خدا دے جہاز کا اللہ رے صفائے بیانِ حدیثِ دوست دم بند ہے فصاحتِ اہلِ حجاز کا ہوتا ہے شعبدوں سے ترے آسماں...
  20. فرخ منظور

    مکمل یہ پری چہرہ لوگ ۔ غلام عباس

    یہ پری چہرہ لوگ (تحریر: غلام عباس) پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ بیگم بلقیس تراب علی ہر سال کی طرح اب کے بھی اپنے بنگلے کے باغیچے میں مالی سے پودوں اور پیڑوں کی کانٹ چھانٹ کرارہی تھیں۔ اس وقت دن کے کوئی گیارہ بجے ہوں گے۔ سیٹھ تراب علی اپنے کام پر اور لڑکے لڑکیاں اسکولوں کالجوں میں جا چکے تھے۔...
Top