میر جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایا نہ گیا

کاو کاوِ مژۂ یار و دلِ زار و نزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا

وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حالِ تباہ اپنا دکھایا نہ گیا

گرم رو راہِ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ
اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا

پاسِ ناموسِ محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا

خاک تک کوچۂ دلدار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دلِ گم شدہ پایا نہ گیا

آتشِ تیز جدائی میں یکایک اس بن
دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا

مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے
پھر وہ تا صبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا

زیرِ شمشیرِ ستم میرؔ تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیمِ محبت میں ہلایا نہ گیا

جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
دردِ دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا

(میر تقی میرؔ)
 
آخری تدوین:
Top