نتائج تلاش

  1. س

    صورت جینے کی نہیں رہتی

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے جتنے بھی ملے خونخوار ملے کوئی تو یہاں غمخوار ملے اس شہر میں سب سپنے ٹوٹے دکھوں کے یہاں انبار ملے کیسے منزل تک پہنچوں مَیں رستے ہی ناہموار ملے صورت جینے کی نہیں رہتی اپنوں سے جب انکار ملے بے ساختہ لپٹے پھولوں سے آغوش میں لے کر...
  2. س

    تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی

    سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے تم سے یہ وعدہ رہا پھر ہم نہ آئیں گے کبھی یوں صدا دے کر نہ تم کو اب ستائیں گے کبھی ہم معافی کے ہیں طالب سب خطائیں کر معاف یادِ ماضی کو نہ اب منہ سے لگائیں گے کبھی ایک مدت سے تمھاری منتیں کرتے رہے بارہا انکار کیسے ہم بھلائیں گے کبھی...
  3. س

    کچھ ایسی رہ اختیار کرنا

    محترم سر الف عین عظیم محمد ریحان قریشی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے لہو سے میں نے جو باب لکھے۔ بنامِ عہدِ بہار کرنا ملے جو ان کی گلی سے مجھکو نہ غم وہ سارے شمار کرنا میں خواہشوں کے بھنور سے نکلوں کچھ ایسی رہ اختیار کرنا مرا بھی اٹھنے کو ہے جنازہ لحد پہ کچھ انتظار کرنا تری تھی...
  4. س

    دل سے امید کا کچھ بوجھ اتارا ہوتا۔

    محترم سر الف عین عظیم محمد ریحان قریشی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے ڈوبتی سانس میں اُس کو جو پکارا ہوتا۔ دل سے امید کا کچھ بوجھ اتارا ہوتا۔ اسقدر آج میں مایوس نہ ہوتا کہ اگر۔ زلفِ جاناں کی ہراک لٹ کو سنوارا ہوتا۔ سنگ یاروں کے اترتا مَیں سمندر میں کاش ڈوبتی ناؤ، نہ یوں دور کنارا...
  5. س

    اس نے زلفوں کو ہواؤں میں اچھالا ہو گا

    محترم سر الف عین عظیم محمد ریحان قریشی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے فیصلہ کر، کہ مرے غم کا مداوا ہو گا یا سرِ بزم کوئی اور تماشا ہو گا روح تک زخم لگے جب کبھی رستے ہونگے کون اس وقت بھلا میرا مسیحا ہو گا آج خوشبو سے معطر ہیں فضائیں کتنی اس نے زلفوں کو ہواؤں میں اچھالا ہو گا بس...
  6. س

    ہر لمحہ تیری ذات سے وابستگی رہی

    محترم سر الف عین عظیم فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے ہر لمحہ تیری ذات سے وابستگی رہی سب کچھ تھا پاس میرے تری بس کمی رہی تیرے بغیر ٹوٹ کے چاہا نہ اور کو پھر بھی نہ تُو رہا نہ تری دوستی رہی راہِ امیدِ یار پہ ہر وقت سرگراں جبروستم کا بار لئے زندگی رہی ٹوٹے ہیں خواب سارے مرے...
  7. س

    چل کسی طور تو ان کی بھی نظر میں ہیں ہم

    سر اصلاح کی گذارش ہے سر الف عین عظیم محمد خلیل الرحمٰن فلسفی قید زنداں کی طرح اپنے ہی گھر میں ہیں ہم۔ پھر بھی یادوں کے عوض رقصِ شرر میں ہیں ہم۔ کتنا رنگین ہے یہ شہر مگر تیرے بنا۔ ایسا لگتا ہے کہ برباد نگر میں ہیں ہم۔ ایک انجان جگہ پر تھا ہمیں تیرا گماں۔ ایک مدت سے اُسی طرف سفر میں ہیں...
  8. س

    اس حال میں حضور ترے نام کیا کروں

    افاعیل: مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن سر الف عین صاحب اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے مَیں ہجر میں سسکتی ہوئی، شام کیا کروں خالی ہے اب جو مے سے، مَیں وہ جام کیا کروں بستر کی ہر شکن میں ہیں کانٹے جدائی کے بے چینیوں کی سیج پہ ،آرام کیا کروں دامن میں ہیں مرے تو زمانے کی کلفتیں اس حال میں...
  9. س

    غزل برائے اصلاح

    محترم سر الف عین ، یاسر شاہ ، عظیم ، فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے خزاں کی اب دھول چاٹ لی ہر ورق پہ تازہ گلاب لکھنا مٹا کے دل سے فراق سب وصل وصل سارے نصاب لکھنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ردائے حسرت سے ڈھانپ کر منہ ملن کی امید...
  10. س

    غزل برائے اصلاح

    محترم الف عین صاحب اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے رات بھر لکھتا رہا بس نیند کیا آتی مجھے تم سے پہلا عشق تھا بس نیند کیا آتی مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے کہیں گھنگرو کی چھن چھن اور کہیں حمدوثنا رنگ سارے ہیں جدا بس نیند کیا آتی مجھے...
  11. س

    غزل برائے اصلاح

    سر الف عین صاحب ، یاسر شاہ اور دیگر تمام احباب سے اصلاح کی گزارش ہے کوئی روتا نہیں حالات رلا دیتے ہیں دل کی تنہائی میں طوفان اٹھا دیتے ہیں تھا تقاضا یہ ہمارا ترے پاؤں میں رہیں تُو نے دھتکار دیا پھر بھی صدا دیتے ہیں تُو نے نشتر سے کریدے ہیں ہمارے سب زخم ظرف ہے پھر بھی ہمارا کہ دعا دیتے...
  12. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ عظیم فلسفی سر اصلاح کے لئے گذارش ہے مجھے یوں کفن میں وہ دیکھ کر ہوئے اشکبار نہ پوچھیے تہہِ خاک مَیں بھی ہوں مضطرب مرا اضطرار نہ پوچھیے کوئی ایسا رستہ نکالیے مجھے ٹوٹنے سے بچائے جو میں بکھر رہا ہوں گھڑی گھڑی مرا حالِ زار نہ پوچھیے مری تلخیوں کو سمیٹ کر نئی زندگی مجھے دیجیے ہوا...
  13. س

    غزل برائے اصلاح

    سر الف عین یاسر شاہ عظیم فلسفی محمد خلیل الرحمٰن میری سوچیں نکھارنے والے میری راہیں سدھارنے والے ..................................... میں غریبِ وطن ہوں سن لینا دل میں نشتر اتارنے والے .................................... ہم مسافت سے ہیں بہت نالاں دُور سے اے پکارنے والے...
  14. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ محمد خلیل الرحمٰن فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش ہے یوں مجھ پہ تھا عروج وفاؤں کے شہر میں جلتے تھے میرے دیپ ہواؤں کے شہر میں …………………………………………………………… ہر لاش سے عیاں تھی وفاؤں کی داستاں کتنی اداسیاں تھیں جفاؤں کے شہر میں...
  15. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ محمد خلیل الرحمٰن فلسفی اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے کل تک سماج کے یوں زیرِ عتاب تھا میں پانی میں ڈوب کر بھی مثلِ سراب تھا میں …………………………………………………………… ہے تلخیوں کی نذر اب گم گشتہ یہ جوانی بچپن کے روز و شب میں کھِلتا گلاب تھا میں …………………………………………………………… اُن کو ازل سے...
  16. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ محمد خلیل الرحمٰن فلسفی عظیم اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے جی میں آتا ہے ترے خط بھی جلاتے جائیں جاتے جاتے تجھے ہم بھی تو ستاتے جائیں …………………………………………………………… گردشِ وقت میں ہم خود سے وفا کر نہ سکے چل کوئی عہد زمانے سے نبھاتے جائیں ………………………………………………………… دفن کے وقت...
  17. س

    غزل برائے اصلاح

    سر الف عین یاسر شاہ عظیم فلسفی سر اصلاح کی درخواست ہے چشم پرنم سے رواں ہیں جو سلگتی بوندیں کتنی آوارہ ہیں گالوں پہ ٹپکتی بوندیں ………………………………………………………… آ کہ برسات کے موسم میں رلا جاتی ہیں مجھکو احساسِ جدائی سے تڑپتی بوندیں …………………………………………………………… میری تنہائی میں طوفان بپا رہتا ہے چھیڑ دیں جب وہ...
  18. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ عظیم فلسفی سر اصلاح کی درخواست ہے برہنہ سر جب جناب اترے تو مثلِ سایہ سحاب اترے شراب احمر بھی بے نشہ ہے۔ فلک سے اطہر شراب اترے بہار ہو جب سوال میرا۔ جواب تیرا گلاب اترے۔ امید پر انتظار میں ہوں۔ وہ اک گھڑی بےحجاب اترے۔ رخِ صنم بے نقاب دیکھا۔ تو آرزوؤں کے باب اترے۔ وہی تھے...
  19. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ عظیم محمد خلیل الرحمٰن سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں تمھارےبعداک بارِ گراں ہے زندگی میری۔ بتاؤں کیا کہ دردِ بیکراں ہے زندگی میری۔ مجھے ہونے نہ ہونے کا نہیں احساس اب یارو۔ کوئی آواز دو مجھکو کہاں ہے زندگی میری۔ ملا دے کوئی ساقی سے لبوں تک جان آئی ہے۔ چھلکتے ایک ساغر میں...
  20. س

    غزل برائے اصلاح

    الف عین یاسر شاہ عظیم محمد خلیل الرحمٰن سر اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہوں جانے کی یہ زد چھوڑ اب ہے برسات ٹھہر جا۔ اب تک یہ ادھوری ہے ملاقات ٹھہر جا۔ ہر رند کی آنکھوں میں ہے تُو ، ہاتھ میں ساغر۔ ہے خوب جمی بزمِ خرابات ٹھہر جا۔ آنسو جو دئیے جاتے ہو کیسے یہ رکیں گے۔ جی بھر کے تو رو لوں مَیں بس اک...
Top