ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی - بانی

کاشفی

محفلین
غزل
(بانی)
ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی
ذہن میں کچھ لکیریں تھیں، خاکہ نہ تھا۔ کچھ نشاں تھے نظر میں، علامت نہ تھی

زرد پتے کہ آگاہ تقدیر تھے، ایک زائل تعلق کی تصویر تھے
شاخ سے سب کو ہونا تھا آخر جُدا، ایسی اندھی ہوا کی ضرورت نہ تھی

اک رفاقت تھی زہریلی ہوتی ہوئی، راستہ منتظر خود دو راہے کا تھا
پھر وہ اک دوسرے سے جُدا ہو گئے، دونوں چپ تھے کہ دونوں کو حیرت نہ تھی

ایک آراستہ گھر میں تھا کب سے میں، ایک صدبرگ منظر میں تھا کب سے میں
میری خاطر تھیں کیا کیا ہنرکاریاں، اک نظر دیکھنے کی بھی فرصت نہ تھی

آج رکھا ہے لمحہ ترے ہاتھ پر، لمس اوّل کی لذت کو محفوظ کر
کل نہ کہنا فلک خوش تعاون نہ تھا، کل نہ کہنا زمیں خوبصورت نہ تھی!

کتنا پانی بہا لے گئی ندی، کتنے منظر اُڑا لے گئی ہے ہوا
اک خزانہ کہ اب تک نہ خالی ہوا، اک زیاں تھا کہ جس کی شکایت نہ تھی

ایک اک لفظ کے سینہء خشک سے فصل صد رنگ معنی اگانا پڑی
اپنی تقدیر میں کوئی ورثہ نہ تھا، نام اپنے کوئی وصیت نہ تھی
 

الف عین

لائبریرین
بانی کے نام پر فوراً چلا آیا یہاں۔ خوب غزل ہے۔
آخری شعر بلکہ آخری مصرع میں کچھ لفظ چھوٹ گیا ہے’کوئی‘ سے پہلے یا بعد میں شاید ‘بھی‘
 

کاشفی

محفلین
کاشفی بھائی ۔ بانی صاحب کا کچھ اورتعارف ؟

تعارفِ شاعر: مندرجہ بالا غزل کے شاعر بانی کا پورا نام راجیندر منچندا بتخلص بانی ہے۔ آپ 1932ء میں ملتان شریف میں پیدا ہوئے۔ بعد میں ان کا خاندان دہلی ہجرت کرگیا۔۔
انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری دہلی سے حاصل کی۔
1981ء بانی صاحب اس دنیا سے کوچ کرگئے۔۔۔
 
Top