کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

کیا کہوں تیرے تغافل نے، حیا نے کیا کیا
اِس ادا نے کیا کیا اور اُس ادا نے کیا کیا

بوسہ لے کر جان ڈالی غیر کی تصویر میں
یہ اثر تیرے لبِ معجز نما نے کیا کیا

یاں جگر پر چل گئیں چھریاں کسی مشتاق کی
واں خبر یہ بھی نہیں ناز و ادا نے کیا کیا

میرے ماتم سے مرے قاتل کو ناخوش کر دیا
کیا کیا افسوس یہ اہلِ عزا نے کیا کیا

حشر میں پھرتے ہیں خوش خوش کیا وہ اترائے ہوئے
اور کہتے ہیں مرا روزِ جزا نے کیا کیا

چاہ کر ہم نے تو حسینوں کو مزے لوٹا کیے
پند گو تیرے دل بے مدعا نے کیا کیا

رائیگاں جاتی نہیں محنت کسی کی ہمنشیں
ہم دکھا دیں گے ہماری التجا نے کیا کیا

مار ڈالا آپ اپنی رنج فرقت میں مجھے
اور پھر کہتا ہے ظالم یہ خدا نے کیا کیا

سُنتے ہیں اے داغ ہم اُس بت سے بگڑا ہے رقیب
غیب سے سامان دیکھو تو خدا نے کیا کیا
 
Top