داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے - باقی صدّیقی

فرخ منظور

لائبریرین
یہ غزل محمد وارث صاحب کی نذر ہے -

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسے قدم اٹھانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے سر ِشام آنے لگے
 

نوید صادق

محفلین
واہ کیا! غزل پوسٹ کر دی ہے آپ نے۔
سخنور صاحب ! اسی بات پر باقی صدیقی ہی کا ایک خوبصورت شعر
آپ کی نذر!

تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ سبحان اللہ فرخ صاحب، اللہ تعالٰی آپ کو خوش رکھیں، آپ نے تو میری دلی مراد پوری کر دی۔ آج تک اسے اقبال بانو کی آواز میں ہی سنا تھا، پہلی دفعہ مکمل غزل پڑھ رہا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ دیرنیہ خواہش پوری ہو گئی یعنی اس غزل کے خالق کا نام معلوم ہو گیا۔

بہت شکریہ قبلہ۔
 

نوید صادق

محفلین
برادران!!
یہ مکمل غزل نہیں ہے۔
میں اس وقت نہیں لیکن شاید تھوڑی دیر بعد یا کل مکمل غزل باقی کی کتاب سے دیکھ کر لکھ دوں۔
 

نوید صادق

محفلین
دوستو!!
پوری غزل حاضر ہے

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے

خودفریبی سی خودفریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گُل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے

شاعر: باقی صدیقی

نوٹ: کلیاتِ شیفتہ کی تکمیل کے بعد انشاءاللہ میں باقی صدیقی کا ایک انتخاب اپ لوڈ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ باقی اپنے عہد کے نمائندہ اور اہم شاعر ہیں۔
نوید صادق
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ نوید صاحب - اور آخری شعر میں ایک لفظ مختلف ہے - جس کتاب سے میں نے یہ غزل پوسٹ کی ہے وہ سعد اللہ شاہ کی مرتب کردہ ہے - سعد سے ایسی ہی توقع کی جا سکتی ہے - نہ غزل مکمل اور نہ شعر درست - بہرحال بہت شکریہ - اب غزل میں زیادہ معنویت پیدا ہوگئی -
 

نوید صادق

محفلین
بھائی!!
وہ تو آپ نے جو مصرعہ لکھا تھا(آخری)۔ وہ سے سرے سے ہے ہی بے وزن۔

خیر، ہوتا ہے، اس طرح کے مرتبین ایسی حرکات کر جاتے ہیں۔
 

ثناءاللہ

محفلین
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

یہی رستہ ہے اب یہی منزل
اب یہیں دل کسی بہانے لگے

خودفریبی سی خودفریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اٹھانے لگے

اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے

رخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اٹھ کے جانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے

ہم تک آئے نہ آئے موسمِ گُل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
 

مغزل

محفلین
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی صدیقی

باقی صدیقی (1908ء تا 1972) اردو اور پنجابی کے شاعر تھے۔ اصل نام محمد افضل قریشی تھا۔ روالپنڈی کے نواحی گاؤں ہسام میں پیدا ہوئے ۔ میٹرک پاس کرکے گاؤں کے مدرسہ میں‌ مدرس ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد روالپنڈی آ گئے ۔ سترہ برس ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور بے شمار پوٹھوہاری گیت لکھے۔ اردو کلام کے چار مجموعے ۔ جام جم ، دارورسن ، زخم بہار اور بارِ سفر شائع ہوچکے ہیں۔ کچے گھڑے پوٹھوہاری گیتوں کا مجموعہ ہے۔

(محمد محمود مغل)
اب ایک مشہورِ زمانہ غزل ملاحظہ کیجئے ۔۔


غزل

داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے

کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے

خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسے قدم اٹھانے لگے

ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اپنی قسمت سے ہے مفر کس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے

شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے سر ِشام آنے لگے

باقی صدیقی​
 
Top