پسندیدہ کلام

  1. سردار محمد نعیم

    درد مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں

    مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں کوئی اور بھی ہے ترے سوا تو اگر نہیں تو جہاں نہیں پڑی جس طرف کو نگاہ یاں نظر آ گیا ہے خدا ہی واں یہ ہیں گو کہ آنکھوں کی پتلیاں مرے دل میں جائے بتاں نہیں مرے دل کے شیشے کو بے وفا تو نے ٹکڑے ٹکڑے ہی کر دیا مرے پاس تو وہی ایک تھا یاں دکان...
  2. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر مجھ پہ محشر میں نصیر ان کی نظر پڑ ہی گئی

    .مجھ پہ بھی چشمِ کرم اے مِرے آقا! کرنا حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا میں کہ ذرہ ہُوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے کہ ترے بس میں ہے قطرے کو بھی دریا کرنا میں ہوں بےکس ، تیرا شیوہ ہے سہارا دینا میں ہوں بیمار ، تیرا کام ہے اچھا کرنا تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے کہ تری شان کے شایاں نہیں...
  3. سردار محمد نعیم

    نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق

    اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے نہیں بچتا نہیں بچتا نہیں بچتا عاشق پوچھتے کیا ہو شب ہجر میں کیا ہوتا ہے بے اثر نالے نہیں آپ کا ڈر ہے مجھ کو ابھی کہہ دیجیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے کیوں نہ تشبیہ اسے زلف سے دیں عاشق زار واقعی طول شب ہجر بلا ہوتا ہے...
  4. سردار محمد نعیم

    کاش مری جبین شوق سجدوں سے سرفراز ہو ۔۔۔۔ یار کی خاک آستاں تاج سر نیاز ہو . . بیدم شاہ وارثی

    کاش مری جبین شوق سجدوں سے سرفراز ہو یار کی خاکِ آستاں تاجِ سرِ نیاز ہو . ہم کو بھی پایئمال کر عمر تری دراز ہو مستِ خرامِ ناز ادھرمشقِ خرامِ ناز ہو . چشمِ حقیقت آشنا دیکھے جو حسن کی کتاب دفترِ صد حدیث راز ہر ورقِ مجاز ہو سامنے روئے یار ہو سجدہ میں ہو سرِ نیاز یونہی حریم ناز میں آٹھوں پہر نماز...
  5. سردار محمد نعیم

    قابل اجمیری تمہیں جو میرے غم دل سے آگہی ہو جائے

    تمہیں جو میرے غم دل سے آگہی ہو جائے جگر میں پھول کھلیں آنکھ شبنمی ہو جائے اجل بھی اس کی بلندی کو چھو نہیں سکتی وہ زندگی جسے احساس زندگی ہو جائے یہی ہے دل کی ہلاکت یہی ہے عشق کی موت نگاہ دوست پہ اظہار بیکسی ہو جائے زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے...
  6. سردار محمد نعیم

    میر فلک نے پیس کر سرمہ بنایا . . نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا

    فلک نے پیس کر سرمہ بنایا نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا زمانے میں مرے شور جنوں نے قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا بلا تھی کوفت کچھ سوز جگر سے ہمیں تو کوٹ کوٹ ان نے جلایا تمامی عمر جس کی جستجو کی اسے پاس اپنے اک دم بھی نہ پایا نہ تھی بیگانگی معلوم اس کی نہ سمجھے ہم اسی سے دل لگایا قریب...
  7. سردار محمد نعیم

    فانی جلوہ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا

    جلوۂ عشق حقیقت تھی حسن مجاز بہانہ تھا شمع جسے ہم سمجھے تھے شمع نہ تھی پروانہ تھا شعبدے آنکھوں کے ہم نے ایسے کتنے دیکھے ہیں آنکھ کھلی تو دنیا تھی بند ہوئی افسانہ تھا عہد جوانی ختم ہوا اب مرتے ہیں نہ جیتے ہیں ہم بھی جیتے تھے جب تک مر جانے کا زمانہ تھا دل اب دل ہے خدا رکھے ساقی کو مے خانے کو...
  8. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر تذکرہ سنئیے اب ان کا دل بیدار کے ساتھ

    تذکرہ سُنئیے اب اُن کا دِلِ بیدار کے ساتھ جِن کا ذِکر آتا ہے اکثر شاہِ ابرارﷺ کے ساتھ صِرف زینبؑ کا وہ خُطبہ سرِ دربار نہ تھا رُعب حیدرؑ کا بھی تھا جُراٗتِ اِظہار کے ساتھ بیڑیاں، صدمہ، سفر، پیاس، نقاہت، صحرا ظلم کیا کیا نہ ہُوئے عابؑدِ بیمارکے ساتھ ہائے وہ کِسطرح بازارسے گزرے ہونگے نام تک...
  9. سردار محمد نعیم

    بے وفائی سے وفاؤں کا صلہ مت دینا

    بے وفائی سے وفاؤں کا صلہ مت دینا بد دعا دینے سے اچھا ہے دعا مت دینا تہمتیں آپ کے دامن سے لپٹ سکتی ہیں آگ جب سلگی ہوئی ہو تو ہوا مت دینا گل کھلا سکتا ہے آوارہ خیالی کا سفر ذہن حساس کو خوشبو کا پتا مت دینا جن سے منسوب ہے تاریخ رواداری کی آندھیو ایسے درختوں کو گرا مت دینا جو مکاں لمس...
  10. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر تجھ سا نہ تھا کوئی نہ کوئی ہے حسیں کہیں . . . تو بے مثال ہے ترا ثانی نہیں کہیں

    تجھ سا نہ تھا کوئی ، نہ کوئی ہے حسیں کہیں تُو بے مثال ہے ترا ثانی نہیں کہیں اپنا جنوں میں مدِ مقابل نہیں کہیں دامن کہیں ، جیب کہیں ، آستیں کہیں زاہد کے سامنے جو ہو وہ نازنیں کہیں دل ہو کہیں حُضور کا دُنیا و دیں کہیں اک تیرے آستاں پہ جھکی ہے ہزار بار ورنہ کہاں جھُکی ہے ہماری جبیں کہیں دل کا...
  11. سردار محمد نعیم

    نصیر الدین نصیر جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ عضب میں ہے اضطراب میں ہے

    جو دور ہو تم تو لمحہ لمحہ ' غضب میں ہے اضطراب میں ہے ابھی مقدر میں گردشیں ہیں' ابھی ستارا عذاب میں ہے لڑکپن اب ہو چکا ہے رُخصت ' کوئی جہانِ شباب میں ہے تجلیاں ہیں کہ بے مَحابا ' ہزار چہرہ نقاب میں ہے نہیں ہے تیری مثال ساقی ' یہ دیکھا تجھ میں کمال ساقی عجیب کیف و سرور مستی ' تری نظر کی شراب...
  12. سردار محمد نعیم

    زخم کھا کے بھی مسکراتا رہا

    زخم کھا کے بھی میں مسکراتا رھا ھر غم کو دھوئیں میں اڑاتا رھا اس سے پیار کی توقع عبث تھی اسکی بےرخی سے دل بہلاتا رھا درد دل کے سبب جاگنا جو تھا پھر ھر درد کو خود جگاتا رھا خوشیاں سبھی جب روٹھ گئیں ھر غم سے میں آنکھ ملاتا رھا عجب ھے ماجرا شب وصل کا میں پیتا رھا وه پلاتا...
  13. سردار محمد نعیم

    حالی جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے

    جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے قدم دشت پیما ہوا چاہتا ہے دم گریہ کس کا تصور ہے دل میں کہ اشک اشک دریا ہوا چاہتا ہے خط آنے لگے شکوہ آمیز ان کے ملاپ ان سے گویا ہوا چاہتا ہے بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے ابھی لینے پائے نہیں دم جہاں میں اجل کا تقاضا ہوا چاہتا ہے...
  14. سردار محمد نعیم

    اب آدمی کچھ اور ہماری نظر میں ہے

    اَب آدمی کچھ اور ہَماری نَظر میں ہے جَب سے سُنا ہے یار لِباسِ بَشر میں ہے اَپنا ہی جَلوہ ہے جو ہَماری نَظر میں ہے اَب غیر کون چشمِ حَقیقت نَگر میں ہے وہ گَنجِ حُسن ہے دِلِ وِیراں میں جَلوہ گَر فَضلِ خُدا سے دولتِ کونین گَھر میں ہے بَس اِک فَروغِ نَقشِ کَفِ پا کے فیض سے ہَر ذرہ آفتاب تِری...
  15. لاریب مرزا

    روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر

    روز دل میں حسرتوں کو جلتا بجھتا دیکھ کر تھک چکا ہوں زندگی کا یہ رویہ دیکھ کر ریزہ ریزہ کر دیا جس نے مرے احساس کو کس قدر حیران ہے وہ مجھ کو یکجا دیکھ کر کیا یہی محدود پیکر ہی حقیقت ہے مری سوچتا ہوں دن ڈھلے اب اپنا سایہ دیکھ کر کچھ طلب میں بھی اضافہ کرتی ہیں محرومیاں پیاس کا احساس بڑھ...
  16. ام اویس

    امجد اسلام امجد کہیں سنگ میں بھی ہے روشنی کہیں آگ میں بھی دُھواں نہیں: امجد اسلام امجد

    کہیں سنگ میں بھی ہے روشنی کہیں آگ میں بھی دُھواں نہیں یہ عجیب شہرِ طلسم ہے کہیں آدمی کا نشاں نہیں نہ ہی اِس زمیں کے نشیب میں نہ ہی آسماں کے فراز پر کٹی عمر اُس کو تلاشتے ، جو کہیں نہیں پر کہاں نہیں یہ جو زندگانی کا کھیل ہے، غم و انبساط کا میل ہے اُسے قدر کیا ہو بہار کی کبھی دیکھی جس نے خزاں...
  17. لاریب مرزا

    جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

    بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا یہ کون ہیں جو پسِ جسم و...
  18. لاریب مرزا

    مجید امجد صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے

    ہر وقت فکرِ مرگِ غریبانہ چاہیے صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے دنیائے بے طریق میں جس سمت بھی چلو رستے میں اک سلامِ رفیقانہ چاہیے آنکھوں میں امڈے روح کی نزدیکیوں کے ساتھ ایسا بھی ایک دور کا یارانہ چاہیے کیا پستیوں کی ذلتیں، کیا عظمتوں کے فوز اپنے لیے عذاب جداگانہ چاہیے اب دردِ شش بھی سانس کی...
  19. لاریب مرزا

    نہ چشمِ تر بتاتی ہے نہ زخمِ سر بتاتے ہیں

    نہ چشمِ تر بتاتی ہے نہ زخمِ سر بتاتے ہیں وہ اک روداد جو سہمے ہوئے یہ گھر بتاتے ہیں میں اپنے آنسوؤں پر اس لئے قابو نہیں رکھتا کہ میرے دل کی حالت مجھ سے یہ بہتر بتاتے ہیں انہیں دل کی صداؤں پر بھلا کیسے یقیں ہوگا یہ آنکھیں تو وہی سنتی ہیں جو منظر بتاتے ہیں یقیناً پھر کسی نے جرأتِ پرواز کی...
  20. لاریب مرزا

    نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے

    نئی مشکل کوئی درپیش ہر مشکل سے آگے ہے سفر دیوانگی کا عشق کی منزل سے آگے ہے مجھے کچھ دیر میں پھر یہ کنارا چھوڑ دینا ہے میں کشتی ہوں سفر میرا ہر اک ساحل سے آگے ہے کھڑے ہیں سانس روکے سب تماشہ دیکھنے والے کہ اب مظلوم بس کچھ ہی قدم قاتل سے آگے ہے مجھے اب روح تک اک درد سا محسوس ہوتا ہے تو کیا...
Top