نعیم صدیقی

  1. محمد تابش صدیقی

    غزل: اے کج شعار! تیرا فدا کار میں ہی تھا ٭ نعیم صدیقیؒ

    اے کج شعار! تیرا فدا کار میں ہی تھا غم کی جراحتوں کا خریدار میں ہی تھا توڑے تھے جس نے جام و صبو میکدے میں شب ہاں بادۂ خودی کا وہ سرشار میں ہی تھا بزمِ چمن میں اب مجھے اذنِ گزر نہیں جس نے اٹھائے نازِ خس و خار میں ہی تھا یاد آ سکے تو ساری ہی تاریخِ عشق میں صد بار زیرِ تیغ و سرِ دار میں ہی تھا...
  2. محمد تابش صدیقی

    غزل: میں کہاں کہاں نہ پہنچ گیا، تری دلبرانہ پکار پر ٭ نعیم صدیقیؒ

    میں کہاں کہاں نہ پہنچ گیا، تری دلبرانہ پکار پر کبھی بحر میں، کبھی دشت میں، کبھی تخت پر، کبھی دار پر یہ مقام وہ ہے کہ جس جگہ، ہوا جذب اہلِ جنوں کا خوں نہ پڑے کوئی بھی نگاہِ بد کبھی خاکِ کوچۂ یار پر نہ تری جفا کا بیاں کیا، نہ غمِ نہاں کو عیاں کیا کبھی عمر بھر نہیں آنے دی، کوئی آنچ تیرے وقار پر...
  3. محمد تابش صدیقی

    غزل: نشانِ گلشن کی جستجو میں نسیمِ خانہ خراب گم ہے ٭ نعیم صدیقی

    نشانِ گلشن کی جستجو میں نسیمِ خانہ خراب گم ہے کہیں ہے بلبل نہ کوئی قمری کہ سرو گم ہے، گلاب گم ہے تمہارے اس چہرۂ کتابی کی روشنی میں کئی شبوں تک کتابِ الفت کو ہم نے دیکھا، وفا کا پہلا ہی باب گم ہے یہ انتظارِ سحر کہاں تک، بناؤ تم اپنے چاند سورج ستارے بجھ بجھ کے گر چکے ہیں مدار سے آفتاب گم ہے...
  4. محمد تابش صدیقی

    غزل: لٹے لٹے سے ہیں گل، بلبلیں اداس اداس ٭ نعیم صدیقی

    لٹے لٹے سے ہیں گل، بلبلیں اداس اداس چمن کی ساری فضاؤں پہ چھا گیا ہے ہراس وہ سنگ دل ہیں تو ان کی مزے میں کٹتی ہے انہیں پتہ بھی نہیں کیا عذاب ہے احساس میں بے بسی سے تماشا کروں خرابی کا مرا قفس بھی رہا شاخِ آشیانہ کے پاس جہاں پہ یاس کی بجلی تباہی لاتی ہے وہیں سے اک نئی کونپل نکال لیتی ہے آس جسے...
  5. محمد تابش صدیقی

    غزل: گو موت کی گھاٹ اتر گئے ہم ٭ نعیم صدیقیؒ

    گو موت کی گھاٹ اتر گئے ہم پر عشق سا کام کر گئے ہم میخانے سے لے کے تا بہ زنداں تیرے لیے در بدر گئے ہم پھوٹی جو کوئی کرن خوشی کی تو بعد کے غم سے ڈر گئے ہم تم نے تو سکھا دیا ہمیں صبر تم بگڑے رہے، سنور گئے ہم جس موڑ میں رہ گئے ہزاروں اس موڑ سے بھی گزر گئے ہم ٭٭٭ نعیم صدیقیؒ
  6. محمد تابش صدیقی

    غزل: کسی کی دوستی ہے اور ہم ہیں ٭ نعیم صدیقیؒ

    کسی کی دوستی ہے اور ہم ہیں زمانے کی ہنسی ہے اور ہم ہیں پہاڑ ایسی شبِ ہجراں ہے سر پر جھڑی پیہم لگی ہے اور ہم ہیں وہ حرفِ آخری کہنے کو چپ ہیں بڑی نازک گھڑی ہے اور ہم ہیں اُدھر اک دل لگی ہے اور وہ ہیں اِدھر جاں پر بنی ہے اور ہم ہیں سنیں سب کچھ مگر کچھ کہہ نہ پائیں انوکھی بے بسی ہے اور ہم ہیں...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظم: ۔۔۔اگر تم ساتھ نہ دو ٭ نعیم صدیقی

    نعیم صدیقی صاحب کی ایک طویل نظم پیشِ خدمت ہے: "۔۔۔اگر تم ساتھ نہ دو" رفیقۂ حیات سے اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا! تم آؤ فرض بلاتا ہے دنیا میں تغیر آتا ہے ایک طوفاں جوش دکھاتا ہے اک فتنہ شور مچاتا ہے ہم لوگ ابھی آزاد نہیں ذہنوں کی غلامی باقی ہے تقدیر کی شفقت سے حاصل تدبیر...
  8. یونس

    نعیم صدیقی نعیم صدیقی کی ایک دل گداز نعت

    !اے میرے نبیٔ صدق و صفا اے میرے نبیٔ صدق و صفا، جب دل پہ شب غم چھاتی ہے اور دل کی شب غم میں کوئی جب برق بلا لہراتی ہے اور برق بلا جب بن کے گھٹا باران شرر برساتی ہے ایسے میں تڑپ اٹھتا ہے یہ دل، ایسے میں تیری یاد آتی ہے !اے میرے نبیٔ صدق و صفا جب چاندی کے بت خانوں میں انساں کے لہو کی بھینٹ چڑھے...
  9. محمد بلال اعظم

    نعیم صدیقی تُو رسُولِﷺ حق، تُو قبولِ حق، ترا تذکرہ ہے فلک فلک۔۔۔ نعیم صدیقی

    تُو رسُولِﷺ حق، تُو قبولِ حق، ترا تذکرہ ہے فلک فلک تُو ہے مُصطفیٰﷺ، تُو ہے مجتبیٰﷺ، ترا نعت خواں ہے ملک ملک ترے سوز و سازِ فراق سے رہی ساری رات بہت کسک سرِ شام سے دمِ صبح تک نہ لگی پلک سے ذرا پلک ترے سب زماں، ترا کل مکاں! ترے مہر و مہ، تری کہکشاں تُو اِدھر سے اُٹھ، تُو اُدھر سے آ، تُو یہاں...
  10. م

    شہداء کی نعشیں ۔۔۔ نعیم صدیقی

    شہداء کی نعشیں شہداء کی نعشوں کو یہ منظوم خراجِ عقیدت اور ان کے شہید جسموں سے اٹھتی ہوئی پکار کو الفاظ روپ کوئی چار عشرے قبل اس وقت دیا گیا تھا جب مصر میں سیّد قطبؒ سمیت اخوان المسلمون کے تین عظیم راہنماؤں کو پھانسی دی گئی تھی۔ راہِ حق پر چلنے والوں کی شہادتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ شاعر ...
  11. ابوشامل

    حاصل مطالعہ: روحِ انقلاب محمدی

    انسانیت کی شاید سب سے بڑی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ جس کسی کو بھی برسر قوت آنے کا موقع تاریخ میں ملا ہے۔ تلوار کے زور سے، سازش کے بل پر، جمہوری انتخاب کے راستے سے یا کسی اتفاقی حادثے کے تحت – اسی کو اپنے متعلق یہ زعم ہو گیا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کا معلم اور زندگی کا مصلح بھی ہے۔ ایسے مصلحین و معلمین...
  12. ا

    آگ چناروں کے درمیاں - نعیم صدیقی

    ٹیلوں کے آس پاس وہ غاروں کے درمیاں بھڑکی ہوئی ہے آگ چناروں کے درمیاں راہِ ظفر گذرتی ہے لاشوں کے بیچ بیچ جیسے یہ کہکشاں ہو ستاروں کے درمیاں ہر تیزِ زخم دل میں گرفتار ہوگیا صیاد آگھرا ہے شکاروں کے درمیاں دل ہے عجیب چیز نزاکت کے باوجود رقصاں ہے خنجروں کی قطاروں کے درمیاں شاداب جوئے خونِ...
Top