غزل: اے کج شعار! تیرا فدا کار میں ہی تھا ٭ نعیم صدیقیؒ

اے کج شعار! تیرا فدا کار میں ہی تھا
غم کی جراحتوں کا خریدار میں ہی تھا

توڑے تھے جس نے جام و صبو میکدے میں شب
ہاں بادۂ خودی کا وہ سرشار میں ہی تھا

بزمِ چمن میں اب مجھے اذنِ گزر نہیں
جس نے اٹھائے نازِ خس و خار میں ہی تھا

یاد آ سکے تو ساری ہی تاریخِ عشق میں
صد بار زیرِ تیغ و سرِ دار میں ہی تھا

گلچیں! نہیں ہے سہل بہاروں کی پرورش
جس نے لہو دیا ہے وہ ہر بار میں ہی تھا

میں ہی تھا جس نے آگ میں پڑ کر بھی گائے گیت
کانٹوں کے درمیاں کھڑا، گلبار میں ہی تھا

زخموں سے چور چور ہوا ہر زمانے میں
باطل سے پھر بھی برسرِ پیکار میں ہی تھا

تخلیق کے مرقعِ رنگیں میں اے خدا
تیرے فنِ لطیف کا شہکار میں ہی تھا

تھی جاں ضرور لب پہ، کوئی التجا نہ تھی!
ایسا تمھارا عاشقِ خوددار میں ہی تھا!

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 
اے کج شعار! تیرا فدا کار میں ہی تھا
غم کی جراحتوں کا خریدار میں ہی تھا

توڑے تھے جس نے جام و صبو میکدے میں شب
ہاں بادۂ خودی کا وہ سرشار میں ہی تھا

بزمِ چمن میں اب مجھے اذنِ گزر نہیں
جس نے اٹھائے نازِ خس و خار میں ہی تھا

یاد آ سکے تو ساری ہی تاریخِ عشق میں
صد بار زیرِ تیغ و سرِ دار میں ہی تھا

گلچیں! نہیں ہے سہل بہاروں کی پرورش
جس نے لہو دیا ہے وہ ہر بار میں ہی تھا

میں ہی تھا جس نے آگ میں پڑ کر بھی گائے گیت
کانٹوں کے درمیاں کھڑا، گلبار میں ہی تھا

زخموں سے چور چور ہوا ہر زمانے میں
باطل سے پھر بھی برسرِ پیکار میں ہی تھا

تخلیق کے مرقعِ رنگیں میں اے خدا
تیرے فنِ لطیف کا شہکار میں ہی تھا

تھی جاں ضرور لب پہ، کوئی التجا نہ تھی!
ایسا تمھارا عاشقِ خوددار میں ہی تھا!

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
قاتل غزل!
 
Top