غزل: میں کہاں کہاں نہ پہنچ گیا، تری دلبرانہ پکار پر ٭ نعیم صدیقیؒ

میں کہاں کہاں نہ پہنچ گیا، تری دلبرانہ پکار پر
کبھی بحر میں، کبھی دشت میں، کبھی تخت پر، کبھی دار پر

یہ مقام وہ ہے کہ جس جگہ، ہوا جذب اہلِ جنوں کا خوں
نہ پڑے کوئی بھی نگاہِ بد کبھی خاکِ کوچۂ یار پر

نہ تری جفا کا بیاں کیا، نہ غمِ نہاں کو عیاں کیا
کبھی عمر بھر نہیں آنے دی، کوئی آنچ تیرے وقار پر

مرے شب گزیده مسافرو! نئے مہر و ماه تراش لو
نہ فضاؤں میں کوئی چاند ہے، نہ ہے آفتاب مدار پر

مری عمر کا تھا سفر کٹھن، کہ چلا ہوں سانس بھی روک کر
کبھی تیغِ ناز کی باڑھ پر، کبھی اپنے خون کی دھار پر

میری جانِ شوق! ابھی نہیں! ابھی محوِ رزمِ خودی ہوں میں
ہے گماں کہ لوٹ کے آؤں گا، نئے جشنِ فصلِ بہار پر

سنو اہلِ دل! کہ سر آ پڑا، کڑا وقت، ہر سو نظر رکھو
کہ شکاریانِ مفاد کی کئی ٹولیاں ہیں شکار پر

تمہیں کیا خبر میرے دوستو کہ کدھر سے کون ہے حملہ کش
مری فکر، میرے شعور پر، مرے شعر، میرے شعار پر

انھیں میں نے خود ہی پھڑک پھڑ ک کے قفس میں ختم ہی کر لیا
بچے رہ گئے جو کترنے سے، مرے بازوؤں پہ دو چار پر

ہے دل و نگاہ کے کھیل میں، ترا شوق الگ، مرا ذوق الگ
یہ تضاد خوب کہ ہے خوشی، تجھے جیت پر، مجھے ہار پر

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب انتخاب!

سنو اہلِ دل کہ سر آ پڑا کڑا وقت، ہر سو نظر رکھو
کہ شکاریانِ مفاد کی کئی ٹولیاں ہیں شکار پر

تمہیں کیا خبر میرے دوستو کہ کدھر سے کون ہے حملہ کش
مری فکرمیرے شعور پر، مرے شعر میرے شعار پر

کیا بات ہے!
 
میں کہاں کہاں نہ پہنچ گیا، تری دلبرانہ پکار پر
کبھی بحر میں، کبھی دشت میں، کبھی تخت پر، کبھی دار پر

یہ مقام وہ ہے کہ جس جگہ، ہوا جذب اہلِ جنوں کا خوں
نہ پڑے کوئی بھی نگاہِ بد کبھی خاکِ کوچۂ یار پر

نہ تری جفا کا بیاں کیا، نہ غمِ نہاں کو عیاں کیا
کبھی عمر بھر نہیں آنے دی، کوئی آنچ تیرے وقار پر

مرے شب گزیده مسافرو! نئے مہر و ماه تراش لو
نہ فضاؤں میں کوئی چاند ہے، نہ ہے آفتاب مدار پر

مری عمر کا تھا سفر کٹھن، کہ چلا ہوں سانس بھی روک کر
کبھی تیغِ ناز کی باڑھ پر، کبھی اپنے خون کی دھار پر

میری جانِ شوق! ابھی نہیں! ابھی محوِ رزمِ خودی ہوں میں
ہے گماں کہ لوٹ کے آؤں گا، نئے جشنِ فصلِ بہار پر

سنو اہلِ دل! کہ سر آ پڑا، کڑا وقت، ہر سو نظر رکھو
کہ شکاریانِ مفاد کی کئی ٹولیاں ہیں شکار پر

تمہیں کیا خبر میرے دوستو کہ کدھر سے کون ہے حملہ کش
مری فکر، میرے شعور پر، مرے شعر، میرے شعار پر

انھیں میں نے خود ہی پھڑک پھڑ ک کے قفس میں ختم ہی کر لیا
بچے رہ گئے جو کترنے سے، مرے بازوؤں پہ دو چار پر

ہے دل و نگاہ کے کھیل میں، ترا شوق الگ، مرا ذوق الگ
یہ تضاد خوب کہ ہے خوشی، تجھے جیت پر، مجھے ہار پر

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
بہترین انتخاب۔ شکریہ قبول فرمائیے۔
 
Top