غزل: کسی کی دوستی ہے اور ہم ہیں ٭ نعیم صدیقیؒ

کسی کی دوستی ہے اور ہم ہیں
زمانے کی ہنسی ہے اور ہم ہیں

پہاڑ ایسی شبِ ہجراں ہے سر پر
جھڑی پیہم لگی ہے اور ہم ہیں

وہ حرفِ آخری کہنے کو چپ ہیں
بڑی نازک گھڑی ہے اور ہم ہیں

اُدھر اک دل لگی ہے اور وہ ہیں
اِدھر جاں پر بنی ہے اور ہم ہیں

سنیں سب کچھ مگر کچھ کہہ نہ پائیں
انوکھی بے بسی ہے اور ہم ہیں

امیدیں، حسرتیں اور آرزوئیں
فریبِ زندگی ہے اور ہم ہیں

جہادِ عاشقی ہے اور دل ہے
کڑی سر آ پڑی ہے اور ہم ہیں

بھری محفل پہ سکتہ چھا رہا ہے
نظر ہم پر جمی ہے اور ہم ہیں

نسیمِ صبح نے زخموں کو چھیڑا
وہ رُت پھر آ گئی ہے اور ہم ہیں

نجانے ہم نے کیا کچھ کہہ دیا ہے
کسی کو چپ لگی ہے اور ہم ہیں

٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
 

گلزار خان

محفلین
میں تو اردو لکھتا ہوں تو غلطیاں کرتا ہوں لیکن اسکو دیکھ پڑھ کے ایک سوال ذہن میں آیا کے کیا یہ مکمل لکھی ہے یا ہے ہی اتنی سی
 
Top