غزل
جتنے کم مجھ سے مُلاقات کے اِمکاں ہونگے
اُتنا اُتنا ہی، وہ مِلنے کو پریشاں ہونگے
ہیں فقط ہم ہی نہیں دِید کے طالِب اُس کے !
گھر سے نِکلیں جو کبھی جان کے حیراں ہونگے
ہر قدم اُس کو دِلائے گا مِرا ہی احساس
اُس کی راہوں میں بِچھے یُوں مِرے ارماں ہونگے
پھر بہار آئی گی، اور پھر مِری یادیں...
غزل
کمالِ عشق ہے دِیوانہ ہوگیا ہُوں مَیں
یہ کِس کے ہاتھ سے دامن چُھڑا رہا ہُوں مَیں
تمھیں تو ہو، جِسے کہتی ہے ناخُدا دُنیا
بچا سکو تو بچا لو، کہ ڈُوبتا ہُوں مَیں
یہ میرے عِشق کی مجبُورِیاں، معاذاللہ!
تمھارا راز، تمھیں سے چُھپا رہا ہُوں مَیں
اِس اِک حجاب پہ سَو بے حجابیاں صدقے !
جہاں سے...
غزل
دبائے دانتوں میں اپنی زبان بیٹھے ہیں
ہم اُن سے کچھ نہ کہیں گے یہ ٹھان بیٹھے ہیں
رہِ غزال میں باندھے مچان بیٹھے ہیں
ہم آزمانے کو قسمت ہی آن بیٹھے ہیں
کُشادہ دل ہیں، سِتم سے رہے ہیں کب خائف
کریں وہ ظُلم بھی ہم پرجو ٹھان بیٹھے ہیں
نہیں ہے اُن سے ہماری کوئی شناسائی
گلی میں شوقِ تجلّی میں...
ہم بھی پِھرتے ہیں یک حَشَم لے کر
دستۂ داغ و فوجِ غم لے کر
دست کش نالہ، پیش رُو گریہ
آہ چلتی ہے یاں، علَم لے کر
مرگ اِک ماندَگی کاوقفہ ہے!
یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر
اُس کے اُوپر، کہ دِل سے تھا نزدِیک !
غم ِدُوری چلے ہیں ہم لے کر
بارہا صید گہ سے اُس کی گئے
داغِ یاس ،آہُوئے حَرَم لے کر...
غالب کہ یہ دِل خستہ شَبِ ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ، جو کہانی میں گُزر جائے
ہے طُرفہ مُفتّن نِگہ اُس آئینہ رُو کی!
اِک پَل میں کرے سینکڑوں خُوں، اور مُکر جائے
نہ بُت کدہ ہے منزلِ مقصود، نہ کعبہ!
جو کوئی تلاشی ہو تِرا ، آہ ! کِدھر جائے
ہر صُبح تو خورشید تِرے مُنہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو ،...
غم مجسّم نظر آیا ، تو ہم اِنساں سمجھے
برق جب جِسم سے وابسطہ ہُوئی ، جاں سمجھے
شوق کی گرمیِ ہنگامہ کو وحشت جانا
جمع جب خاطرِ وحشت ہُوئی، ارماں سمجھے
حکمِ وحشت ہےکہ، زِنداں کو بھی صحرا جانو
دِل وہ آزاد کہ صحرا کو بھی زِنداں سمجھے
فانؔی اِس عالَمِ ظاہر میں سراپا غم تھا !
چُھپ گیا خاک میں تو...
چارہ گر، اےدلِ بے تاب! کہاں آتے ہیں
مجھ کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دُوں سب کچھ، لیکن
ایک مُٹّھی میں ، مِرے خواب کہاں آتے ہیں
مُدّتوں بعد اُسے دیکھ کے، دِل بھر آیا!
ورنہ ،صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
میری بے درد نِگاہوں میں، اگر بُھولے سے!
نیند آئی بھی تو ،...
روز و شب کا رہا خیال نہیں!
کیوں یُوں گذریں کا بھی ملال نہیں
اک تنومند ہے شجر دُکھ کا
غم مِرا، اب غمِ نہال نہیں
لوگ پُوچھیں ہیں نام تک اُس کا
صرف افسُردگی سوال نہیں
کچھ بھی کہنا کہاں ہے کچھ مُشکل
کچھ کہوں دِل کی، یہ مجال نہیں
لوگ ہنستے ہیں حال پر جو مِرے
میں بھی ہنستا ہوں کیا کمال نہیں
آ...
کوئی جیتا ، کوئی مرتا ہی رہا
عِشق اپنا کام کرتا ہی رہا
جمع خاطر کوئی کرتا ہی رہا
دِل کا شیرازہ بِکھرتا ہی رہا
غم وہ میخانہ، کمی جس میں نہیں
دِل وہ پیمانہ، کہ بھرتا ہی رہا
حُسن تو تھک بھی گیا ، لیکن یہ عِشق
کارِ معشوقانہ کرتا ہی رہا
وہ مِٹاتے ہی رہے، لیکن یہ دِل
نقش بن بن کر اُبھرتا...
غزل
جان لینے کو یہ احساس کہِیں کُچھ کم ہے
پیار مجھ سے تمھیں پہلا سا نہیں، کُچھ کم ہے
زیست، کب اُس کے تخیّل سے حَسیں کُچھ کم ہے
اب بھی صُورت ہے وہی دِل کے قرِیں، کُچھ کم ہے
اُن پہ دعویٰ ،کہ ہیں پریوں سے حَسِیں، کُچھ کم ہے
کون کہہ سکتا ہے حُوروں سی نہیں، کُچھ کم ہے
رُخِ سیماب پہ...
غزل
عِشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی
درد دُنیا میں جب آیا، تو دَوا بھی آئی
دِل کی ہستی سے کِیا عِشق نے آگاہ مجھے
دِل جب آیا تو ، دَھڑکنے کی صَدا بھی آئی
صدقے اُتریں گے ، اسیرانِ قفس چھُوٹے ہیں
بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی
ہاں نہ تھا بابِ اثر بند، مگر کیا کہیے
آہ پہنچی تھی،...
دِل کو مِٹا کے داغِ تمنّا دِیا مجھے
اے عِشق ! تیری خیر ہو، یہ کیا دِیا مجھے
محشر میں بات بھی نہ زباں سے نِکل سکی
کیا جُھک کے اُس نگاہ نے سمجھا دِیا مجھے
مَیں، اور آرزُوئےوصالِ پَرِی رُخاں
اِس عِشقِ سادہ لَوح نے، بہکا دِیا مجھے
ہر بار، یاس ہجر میں دِل کی ہُوئی شریک!
ہر مرتبہ ، اُمید نے...
غزل
سُورج مکھی کے گالوں پہ تازہ گُلاب ہے
یہ میرا آفتاب، مِرا ماہتاب ہے
ہر تارہ، کپکپاتے ہُوئے ہونٹوں کی دُعا
یہ آسمان، حمد و ثنا کی کِتاب ہے
بادل ہَوا کی زد پہ بَرَس کے بِکھر گئے
اپنی جگہ چمکتا ہُوا آفتاب ہے
چَونکے تو، یہ طلِسمِ جہاں ٹُوٹ جائے گا !
عالَم تمام حلقۂ زنجیرِ خواب ہے
ناحق خیال...
غزل
خواجہ محمد مِیر اثؔر دہلوی
لوگ کہتے ہیں یار آتا ہے
دِل تجھے اعتبار آتا ہے؟
دوست ہوتا جو وہ، تو کیا ہوتا
دُشمنی پر تو پیار آتا ہے
تیرے کوچے میں بیقرار تِرا
ہر گھڑی بار بار آتا ہے
زیرِ دِیوار تُو سُنے نہ سُنے
نام تیرا پُکار آتا ہے
حال اپنے پہ ،مجھ کو آپ اثؔر!
رحم بے اِختیار آتا ہے
خواجہ...
غزل
یوں زندگی میں ہم سے کوئی کام بھی تو ہو
مائل بہ عِشق جس سے دِل آرام بھی تو ہو
اُن تک سفر کا میرے اب انجام بھی تو ہو
کچھ تگ و دو یہ باعثِ اِنعام بھی تو ہو
دُشنام گو لَبوں پہ خَلِش نام بھی تو ہو!
عاشِق ہو تم، تو شہرمیں بدنام بھی تو ہو
پتّھر برس رہے ہوں کہ ہو موت منتظر
اُن کا، گلی میں آنے...
غزل
شفیق خلؔش
تب اَوج پر مِری واماندگی سی ہوتی ہے
جب اُس نظر میں بھی بیگانگی سی ہوتی ہے
پِھر روز و شب لِئے افسُردگی سی ہوتی ہے
بس اُس کے مِلنے پہ آسودگی سی ہوتی ہے
ترس رہے ہیں ذرا سی ہنسی، خوشی کے لیے
کہ زندگی بھی نہ اب زندگی سی ہوتی ہے
دِیا سُخن کو نیا رنگ تیری فُرقت نے
اب بول چال میں...
غزل
پھر لہُو بول رہا ہے دِل میں
دَم بہ دَم کوئی صدا ہے دِل میں
تاب لائیں گے نہ سُننے والے
آج وہ نغمہ چِھڑا ہے دِل میں
ہاتھ ملتے ہی رہیں گے گُل چِیں
آج وہ پُھول کِھلا ہے دِل میں
دشت بھی دیکھے ، چمن بھی دیکھا
کُچھ عجب آب و ہَوا ہے دِل میں
رنج بھی دیکھے، خوشی بھی دیکھی
آج کُچھ درد نیا ہے دِل...
غزل
آ ہی جائے گی سَحر مطلعِ اِمکاں تو کُھلا
نہ سہی بابِ قفس، روزنِ زِنداں تو کُھلا
لے کے آئی تو صبا اُس گُلِ چینی کا پیام
وہ سہی زخم کی صُورت، لبِ خنداں تو کُھلا
سیلِ رنگ آ ہی رہے گا، مگر اے کشتِ چمن!
ضربِ موسم تو پڑی، بند ِبہاراں تو کُھلا
دِل تلک پہنچے نہ پہنچے، مگر اے چشم ِحیات !
بعد...
غزل
تازہ محبّتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
پھر موسمِ بہار مِرے گُلستاں میں ہے
اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے
تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سَوا
جگنو سی یہ زمِیں جو کفِ آسماں میں ہے
اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خِزاں اَثر
اور آج سارا باغ اُسی کی اماں میں...
غزل
مِسمار کرنے آئی مِری راحتوں کے خواب
تعبیر وسوَسے لئے سب چاہتوں کے خواب
دِل کے یقینِ وصل کو پُختہ کریں کُچھ اور
ہرشب ہی ولوَلوں سے بھرے ہمّتوں کے خواب
پَژمُردہ دِل تُلا ہے مِٹانے کو ذہن سے
اچّھی بُری سبھی وہ تِری عادتوں کے خواب
کیسے کریں کنارا، کہ پیشِ نظر رہیں
تکمیلِ آرزُو سے جُڑے...