غزل
اے خوفِ مرگ ! دِل میں جو اِنساں کے تُو رَہے
پِھر کُچھ ہَوس رہے، نہ کوئی آرزُو رَہے
فِتنہ رَہے، فساد رَہے، گُفتگُو رَہے
منظُور سب مجھے، جو مِرے گھر میں تُو رَہے
زُلفیں ہٹانی چہرۂ رنگیں سے کیا ضرُور
بہتر ہے مُشک کی گُلِ عارض میں بُو رَہے
اب تک تِرے سبب سے رَہے ہم بَلا نصیب
اب تابہ حشر گور...
غزل
تھی نہ قسمت میں مِری ،ذات وہ ہرجائی کی
ایک نسبت تھی بلا وجہ کی رُسوائی کی
راہیں مسدُود رہیں اُن سے شَناسائی کی
دِل کی دِل ہی میں رہی ساری تمنائی کی
باعثِ فخر ، یُوں نسبت رہی رُسوائی کی
تہمتوں کی بھی ، دِل و جاں سے پزِیرائی کی
کوشِشیں دَر کی، کبھی کام نہ آنے دیں گی!
وُسعتیں دشت سی...
غزل
شانِ عطا کو، تیری عطا کی خبر نہ ہو !
یُوں بِھیک دے، کہ دستِ گدا کو خبر نہ ہو
چُپ ہُوں، کہ چُپ کی داد پہ ایمان ہے مِرا
مانگوں دُعا جو میرے خُدا کو خبر نہ ہو
کر شوق سے شِکایتِ محرُومئ وَفا
لیکن مِرے غرُورِ وَفا کو خبر نہ ہو
اِک رَوز اِس طرح بھی مِرے بازوؤں میں آ
میرے ادب کو، تیری...
غزل
جاوؔید لکھنوی
جُھوٹی تسلّیوں پہ شبِ غم بَسر ہُوئی
اُٹّھی چمک جو زخم میں سمجھا سَحر ہُوئی
ہر ہر نَفَس چُھری ہے لئے قطعِ شامِ ہجر
یا آج دَم نِکل ہی گیا، یا سَحر ہُوئی
بدلِیں جو کروَٹیں تو زمانہ بدل گیا
دُنیا تھی بے ثبات، اِدھر کی اُدھر ہُوئی
جاتی ہے روشنی، مِری آنکھوں کو چھوڑ کے
تارے...
غزل
نہ مَیں دِل کو اب ہر مکاں بیچتا ہُوں
کوئی خوب رَو لے تو ہاں بیچتا ہُوں
وہ مَے جس کو سب بیچتے ہیں چُھپا کر
میں اُس مَے کو یارو ! عیاں بیچتا ہُوں
یہ دِل، جس کو کہتے ہیں عرشِ الٰہی
سو اِس دِل کو یارو! میں یاں بیچتا ہُوں
ذرا میری ہّمت تو دیکھو عَزِیزو !
کہاں کی ہے جِنس اور کہاں بیچتا ہُوں...
غزل
آپ سے شرح ِآرزُو تو کریں
آپ تکلیف ِگفتگو تو کریں
وہ نہیں ہیں جو، وہ کہیں بھی نہیں
آئیے دِل میں جُستجُو تو کریں
اہلِ دُنیا مجھے سمجھ لیں گے
دِل کسی دِن ذرا لہُو تو کریں
رنگ و بُو کیا ہے ،یہ تو سمجھا دو
سیرِدُنیائے رنگ و بُو تو کریں
وہ اُدھر رُخ اِدھر ہے میّت کا
لوگ فانؔی کو قِبلہ رُو تو...
غزل
تُو اپنے دِل سے غیر کی اُلفت نہ کھوسکا
مَیں چاہُوں اور کو تو یہ مُجھ سے نہ ہوسکا
رکھتا ہُوں ایسے طالعِ بیدار مَیں، کہ رات !
ہمسایہ، میرے نالَوں کی دَولت نہ سو سکا
گو، نالہ نارَسا ہو، نہ ہو آہ میں اثر !
مَیں نے تو دَرگُزر نہ کی، جو مُجھ سے ہو سکا
دشتِ عَدَم میں جا کے نِکالُوں گا جی کا غم...
غزل
متاعِ قلب و جگِر ہیں، ہَمَیں کہیں سے مِلَیں
مگر وہ زخم ،جو اُس دستِ شبنَمِیں سے مِلَیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر!
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے مِلَیں
میں اِس وِصال کے لمحے کا نام کیا رکھّوں
تِرے لباس کی شِکنیں، تِری جَبِیں سے مِلَیں
ستائشیں مِرے احباب کی نوازِش ہیں
مگر...
غزل
دِلِ زخمی سےخُوں، اے ہمنشِیں! کُچھ کم نہیں نِکلا
تڑپنا تھا، مگر قسمت میں لِکھّا دَم نہیں نِکلا
ہمیشہ زخمِ دِل پر ، زہر ہی چھڑکا خیالوں نے !
کبھی اِن ہمدموں کی جیب سے مرہم نہیں نِکلا
ہمارا بھی کوئی ہمدرد ہے، اِس وقت دُنیا میں
پُکارا ہر طرف، مُنہ سے کسی کی ہم نہیں نِکلا
تجسُّس کی نظر...
سُنیو جب وہ کبھو سَوار ہُوا
تا بہ رُوح الامیں شکِار ہُوا
اُس فریب بندہ کو نہ سمجھے آہ !
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہُوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر!
خاطرِعرش کا غُبار ہُوا
مَر چَلے بے قرار ہو کر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہُوا
وہ جو خنجر بَکف نظر آیا
مِیؔر سو جان سے نِثار ہُوا
مِیر تقی مِیؔر
غزل
کچھ نہ ہم کو سُجھائی دیتا ہے
ہر طرف وہ دِکھائی دیتا ہے
خود میں احساس اب لئے اُن کا
لمحہ لمحہ دِکھائی دیتا ہے
ہوگئے خیر سے جواں ہم بھی
گُل بھی کیا گُل دِکھائی دیتا ہے
دسترس میں ہے کُچھ نہیں پھر بھی
اُونچا اُونچا سُجائی دیتا ہے
کب محبّت میں سُرخ رُو ہونا
اپنی قسمت دِکھائی دیتا...
غزل
جیسی چاہی تھی مُلاقات نہ ہونے پائی
آج پِھر اُن سے مِری بات نہ ہونے پائی
بِکھرے بِکھرے ہی رہے مجھ میں مِرے خواب و خیال !
مجتمع مجھ سے مِری ذات نہ ہونے پائی
ضبط نے پھوڑے اگرچہ تھے پھپھولے دِل کے
شُکر آنکھوں سے وہ برسات نہ ہونے پائی
سر پہ ہر وقت چمکتا رہا میرے سُورج
دِن گُزرتے گئے اِک رات...
غزل
چہرۂ وقت سے اُٹّھے گا نہ پردا کب تک
پسِ اِمروز رہے گا، رُخِ فردا کب تک
اُس کی آنکھوں میں نمی ہے، مِرے ہونٹوں پہ ہنسی
میرے اللہ! یہ نیرنگِ تماشا کب تک
یہ تغافُل ، یہ تجاہل ، یہ سِتم ، یہ بیداد
کب تک ، اے خانہ براندازِ تمنّا !کب تک
بن گیا گردشِ دَوراں کا نِشانہ آخر
لشکرِ وقت سے لڑتا دلِ...
غزل
گو دَورِ جام ِبزم میں، تا ختمِ شب رہا !
لیکن، میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا
پروانہ میری طرح مُصِیبت میں کب رہا
بس رات بھر جَلا تِری محِفل میں جب رہا
ساقی کی بزم میں یہ نظامِ ادب رہا !
جس نے اُٹھائی آنکھ، وہی تشنہ لب رہا
سرکار ،پُوچھتے ہیں خفا ہو کے حالِ دل
بندہ نواز میں تو بتانے سے...
غزلِ
شکؔیل خیرآبادی
مہ لِقا ساقی ہے، ہم ہیں، اور دَورِ جام ہے
کُچھ غمِ فردا ، نہ خوفِ گردشِ ایّام ہے
مَے پرستی حق پرستی ہے، یہی اِسلام ہے
بادۂ توحِید سے لبریز دِل کا جام ہے
پھر ہَمَیں شوقِ شہادت لے چلا ہے سر بکف
کوُچۂ قاتِل میں سُنتے ہیں کہ قتلِ عام ہے
رات جو دُشمن کی ہے، وہ رشکِ صُبحِ...
ابھی کُچھ ہیں مِلنے کو باقی سزائیں
وہ گِنتے ہیں بیٹھے ہماری خطائیں
نہیں آتے پل کو جو پہروں یہاں تھے
اثر کھو چُکی ہیں سبھی اِلتجائیں
زمانہ ہُوا چھوڑ آئے وطن میں
نظر ڈُھونڈتی ہے اب اُن کی ادائیں
مِرے خونِ ناحق پہ اب وہ تُلے ہیں
جو تھکتے نہ تھے لے کے میری بَلائیں
خَلِشؔ تم زمیں کے، وہ ہیں...
پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی !
اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح
یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ !
ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح
جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے !
ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر...
غزل
تمھاری، دِل میں محبّت کا یُوں جواب نہیں
کہ اِس سے، ہم پہ مؤثر کوئی عذاب نہیں
ہزاروں پُوجے مگر بُت کوئی نہ ہاتھ آیا
تمام عُمْر عبادت کا اِک ثواب نہیں
اُمیدِ وصْل سے قائم ہیں دھڑکنیں دِل کی
وگرنہ ہجر میں ایسا یہ کم کباب نہیں
سِوائے حُسن کسی شے کی کب اِسے پروا
ہمارے دِل سے بڑا دہرمیں...
غزل
عذابِ زِیست کی سامانیاں نہیں جاتیں
مِری نظر سے وہ رعنائیاں نہیں جاتیں
بچھڑ کے تجھ سے بھی پرچھائیاں نہیں جاتیں
جو تیرے دَم سے تھیں شُنوائیاں، نہیں جاتیں
گو ایک عُمر جُدائی میں ہو گئی ہے بَسَر
خیال وخواب سے انگڑائیاں نہیں جاتیں
مُراد دِل کی بھی کوئی، کہاں سے بھرآئے
جب اِس حیات سے ناکامیاں...
ذرّوں سے باتیں کرتے ہیں، دِیوار و دَر سے ہم
وابستہ کِس قدر ہیں ، تِری رہگُذر سے ہم
دیکھا جہاں بھی حُسن، وہیں لَوٹ ہو گئے!
تنگ آ گئے ہیں اپنے مزاجِ نظر سے ہم
چھیڑَیں کسی سے، اور ہمارے ہی سامنے!
لڑتے ہیں دِل ہی دِل میں، نَسِیمِ سَحر سے ہم
اِتنی سی بات پر ہے بس اِک جنگِ زرگری
پہلے اُدھر...