جدید نظم

  1. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی فراق ۔ مصطفیٰ زیدی

    فراق ہم نے جِس طرح سبُو توڑا ہے ۔۔۔ ہم جانتے ہیں دلِ پُر خُوں کی مئے ناب کا قطرہ قطرہ جُوئے الماس تھا، دریائے شب ِنیساں تھا ایک اک بُوند کے دامن میں تھی موجِ کوثر ایک اک عکس حدیثِ حَرَم ِ اِیماں تھا ایک ہی راہ پہنچتی تھی تَجلّی کے حضُور ہم نے اُس راہ سے مُنھ موڑا ہے ۔۔۔ ہم جانتے ہیں ماہ پاروں...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اندوہِ وفا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اندوہِ وفا آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے جِس سے اُس شہر کے پھولوں کی مَہک آتی تھی آج وہ نکہتِ آسودہ لُٹا دی ہم نے عقل جِس قصر میں اِنصاف کیا کرتی ہے آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے آگ کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہوا کرب...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ہم لوگ ۔ مصطفیٰ زیدی

    ہم لوگ آؤ اُس یاد کو سِینے سے لگا کر سو جائیں آؤ سوچیں کہ بس اک ہم ہی نہیں تِیرہ نصِیب اپنے ایسے کئی آشفتہ جِگر اَور بھی ہیں ایک بے نام تھکن ، ایک پْر اسرار کَسک دل پہ وُہ بوجھ کہ بْھولے سے بھی پْوچھے جو کوئی آنکھ سے جلتی ہوئی رُوح کا لاوا بہہ جائے چارہ سازی کے ہر انداز کا گہرا نِشتر غم گُساری...
  4. فرخ منظور

    مجید امجد نژادِ نو ۔ مجید امجد

    نژادِ نَو برہنہ سر ہیں ، برہنہ تن ہیں ، برہنہ پا ہیں شریر روحیں ضمیر ہستی کی آرزوئیں چٹکتی کلیاں کہ جن سے بوڑھی ، اداس گلیاں مہک رہی ہیں غریب بچے ، کہ جو شعاعِ سحر گہی ہیں ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں وہ منزلیں ، جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں ترس رہی ہیں انہی کے قدموں میں بس رہی ہیں...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی فسادِ ذات ۔ مصطفیٰ زیدی

    فسادِ ذات دریدہ پَیرہَنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے مگر وُہ اورسبب تھا یہ اَور قِصہ ہے یہ رات اور ہے، وہ رات اور تھی ، جس میں ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تِھیں عجیب لذت ِ نظارہ تھی حجاب کے ساتھ ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ یہی حیاتِ گُریزاں بڑی سہانی تھی نہ تم سے رنج نہ اپنے سے بد...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ہار جیت ۔ مصطفیٰ زیدی

    ہار جیت میری بن جانے پہ آمادہ ہے وہ جانِ حیات جو کسی اور سے پیمان وفا رکھتی ہے میرے آغوش میں آنے کے لئے راضی ہے جو کسی اور کو سینے میں چھپا رکھتی ہے شاعری ہی نہیں کچھ باعثِ عزت مجھ کو اور بہت کچھ حسد و رشک کے اسباب میں ہے مجھ کو حاصل ہے وہ معیارِ شب و روز کہ جو اس کے محبوب کے ہاتوں میں نہیں،...
  7. فرخ منظور

    وصال ۔ مصطفیٰ زیدی

    وِصال وُہ نہیں تھی تو دِل اک شہر ِ وفا تھا،جس میں اُس کے ہونٹوں کے تصوّر سے تپش آتی تھی ! اُس کے اِنکار پہ بھی پُھول کِھلے رہتے تھے اُس کے انفاس سے بھی شمع جلی جاتی تھی دِن اِس اُمید پہ کٹتا تھا کہ دِن ڈھلتے ہی اُس نے کُچھ دیر کو مِل لینے کی مُہلت دی ہے اُنگلیاں برق زدہ رہتی تھیں ، جیسے...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی یاما ۔ مصطفیٰ زیدی

    یاما اے سوگوار! یاد بھی ہے تجھ کو یا نہیں وہ رات، جب حیات کی زلفیں دراز تھیں جب روشنی کے نرم کنول تھے بجھے بجھے جب ساعتِ ابد کی لویں نیم باز تھیں جب ساری زندگی کی عبادت گذاریاں تیری گناہ گار نظر کا جواز تھیں اک ڈوبتے ہوئے نے کسی کو بچا لیا اک تیرہ زندگی نے کسی کو نگاہ دی ہر لمحہ اپنی آگ میں...
  9. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی گناہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    گناہ اے مرے جذبۂ اظہار کی بے نام کسک صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ ذہن کی سطح پہ بہتے ہوئے آنسو بھی تو ہیں گنگناتے ہوئے، گاتے ہوئے دل کے ہم راہ میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے، انہیں چاہا ہے جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں نرم بالوں کے تصور کا سہارا لے کر توڑ دی ہیں مرے ہاتوں نے کئی...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تعمیر ۔ مصطفیٰ زیدی

    تعمیر اپنے سینے میں دبائے ہوئے لاکھوں شعلے شبنم و برف کے نغمات سنائے میں نے زیست کے نوحۂ پیہم سے چرا کر آنکھیں گیت جو گا نہ سکے کوئی وہ گائے میں نے آج تشبیہ و کنایات کا دل ٹوٹ گیا آج میں جو بھی کہوں گا وہ حقیقت ہو گی آنچ لہرائے گی ہر بوند سے پیمانے کی میرے سائے کو مری شکل سے وحشت ہو گی غمِ...
  11. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سمجھوتہ ۔ مصطفیٰ زیدی

    سمجھوتہ لوگ کہتے ہیں، عشق کا رونا گریۂ زندگی سے عاری ہے پھر بھی یہ نامراد جذبۂ دل عقل کے فلسفوں پہ بھاری ہے آپ کو اپنی بات کیا سمجھاؤں روز بجھتے ہیں حوصلوں کے کنول روز کی الجھنوں سے ٹکرا کر !! ٹوٹ جاتے ہیں دل کے شیش محل لیکن آپس کی تیز باتوں پر سوچتے ہیں، خفا نہیں ہوتے آپکی صنف میں بھی ہے...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ایک زخمی تصوّر ۔ مصفطفی زیدی

    ایک زخمی تصوّر یہ ترا عزمِ سفر یہ مرے ہونٹوں کا سکوت اب تو دنیا نہ کہے گی کہ شکایت کی تھی میں سمجھ لوں گا کہ میں نے کسی انساں کے عوض ایک بےجان ستارے سے محبّت کی تھی اک دمکتے ہوئے پتھر کی جبیں چومی تھی ! ایک آدرش کی تصویر سے اُلفت کی تھی ! میں نے سوچا تھا کہ آندھی میں چَراغاں کر دوں میں نے...
  13. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تشنگی ۔ مصطفیٰ زیدی

    تشنگی آپ نے جس کو فقط جنس سے تعبیر کیا ایک مجبور تخیل کی خود آرائی تھی ایک نادار ارادے سے کرن پھوٹی تھی جس کے پس منظرِ تاریک میں تنہائی تھی دلِ ناداں نے چمکتی ہوئی تاریکی کو اپنے معیار کی عظمت کا اُجالا سمجھا ہائے وہ تشنگیِ ذہن و تمنا جس نے جب بھی صحرا پہ نظر کی اُسے دریا سمجھا ناز تھا مجھ کو...
  14. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی انتہا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اِنتہا پھر آج یاس کی تاریکیوں میں ڈوب گئی ! وہ اک نوا جو ستاروں کو چُوم سکتی تھی سکوتِ شب کے تسلسل میں کھو گئی چپ چاپ جو یاد وقت کے محور پہ گھوم سکتی تھی ابھی ابھی مری تنہائیوں نے مجھ سے کہا کوئی سنبھال لو مجھ کو ، کوئی کہے مجھ سے ابھی ابھی کہ میں یوں ڈھونڈتا تھا راہِ فرار پتا چلا کہ...
  15. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کردار ۔ مصطفیٰ زیدی

    کردار خیال و خواب کی دنیا کے دل شکستہ دوست تری حیات مری زندگی کا خاکہ ہے غمِ نگار و غمِ کائنات کے ہاتوں ! ترے لبوں پہ خموشی ہے،مجھ کو سَکتہ ہے مری وفا بھی ہے زخمی تری وفا کی طرح یہ دل مگر وہی اک تابناک شعلہ ہے ترا مزار ہے اینٹوں کا ایک نقشِ بلند مرا مزار مرا دل ہے ، میرا چہرہ ہے جو...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی وہ اجنبی ۔ مصطفیٰ زیدی

    وہ اجنبی وہ مہر و ماہ و مشتری کا ہم عناں کہاں گیا وہ اجنبی کہ تھا مکان و لامکاں کہاں گیا ترس رہا ہے دل کسی کی داوری کے واسطے پیمبرانِ نیم جاں خدائے جاں کہاں گیا وہ ملتفت بہ خندہ ہائے غیر کس طرف ہے آج وہ بے نیازِ گریہ ہائے دوستاں کہاں گیا وہ ابر و برق و باد کا جلیس ہے کدھر نہاں وہ عرش و فرش و...
  17. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ارتقا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اِرتقا یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سنّاٹے میں رات کے سینے سے کتنے ہی گجر پھوٹے ہیں عقل کو آج بھی ہے تشنہ لبی کا اقرار سینکڑوں جام اٹھے، سینکڑوں دل ٹوٹے ہیں زلزلے آئے ہیں ادراک کی بنیادوں میں عشق کا جذبۂ محکم بھی سہارا نہ بنا ایک شعلے کو بھی حاصل نہ ہوا رقصِ دوام ایک آنسو بھی مقدر سے ستارا نہ...
  18. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی شطرنج ۔ مصطفیٰ زیدی

    شطرنج عزیز دوست مرے ذہن کے اندھیرے میں ترے خیال کے دیپک بھٹک رہے ہیں ابھی کہاں سے ہو کے کہاں تک حیات آ پہنچی اداس پلکوں پہ تارے چھلک رہے ہیں ابھی ترے جمال کو احساسِ درد ہو کہ نہ ہو بجھے پڑے ہیں ترانے ستار زخمی ہیں حیات سوگ میں ہے بےزبان دل کی طرح کہ نوجوان امنگوں کے ہار زخمی ہیں مرے...
  19. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تجدید ۔ مصطفیٰ زیدی

    تجدید اُس کی بے باکیوں میں غصّہ تھا اس کے غصّے میں پیار تھا ساتھی آج اس نوبہار کے رُخ پر کس غضب کا نکھار تھا ساتھی ایک سرکش امنگ سینے میں اس طرح اپنا سر اٹھاتی تھی اس کے نم عارضوں کے سائے میں اس کی سانسوں کی آنچ آتی تھی اس کا شکوہ کہ شعر لکھ لکھ کر آپ نے کر دیا مجھے بدنام ایک افسانہ ہے...
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اگست 47 ء ۔ مصطفیٰ زیدی

    اگست 47 ء ابھی غبارِ سرِ کارواں نہیں بیٹھا عروسِ شب کی سواری گزر گئی ہے ضرور ابھی ہماری محبت پہ آنچ پڑنی ہے کسی کی زلف پہ افشاں بکھر گئی ہے ضرور ابھی بہت سے سویروں کو اوس پینی ہے کسی کی پھول سی رنگت نکھر گئی ہے ضرور ہمیں بھی بننا ہے اس التفات کے قابل وہ التفات کا وعدہ تو کر گئی ہے ضرور...
Top