مصطفیٰ زیدی گناہ ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
گناہ

اے مرے جذبۂ اظہار کی بے نام کسک
صرف لذت تو نہیں حاصلِ رندی و گناہ
ذہن کی سطح پہ بہتے ہوئے آنسو بھی تو ہیں
گنگناتے ہوئے، گاتے ہوئے دل کے ہم راہ

میں نے ان آنکھوں کو چوما ہے، انہیں چاہا ہے
جن کی جنبش سے بدل جائیں کئی تقدیریں
نرم بالوں کے تصور کا سہارا لے کر
توڑ دی ہیں مرے ہاتوں نے کئی زنجیریں

اے روایات میں پالی ہوئی روحِ تقدیس
تو نے احساس کی عظمت کو تو سمجھا ہوتا
اے کہن زادۂ اوہام و رسوم و تقلید
میری بدنام شرافت کو تو سمجھا ہوتا

کتنے خوں خوار برافروختہ چہروں کی قطار
مجھ کو ہر راہ پہ ہر صبح و مسا دیکھتی ہے
جن کو جینے کا سلیقہ ہے نہ مرنے کا شعور
ان کی آنکھوں کے دریچے سے قضا دیکھتی ہے

کاش ان آنکھوں سے اِک دن کوئی یہ بھی پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اصحابِ دل آرا میں نہیں

(مصطفیٰ زیدی)
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
کاش ان آنکھوں سے اِک دن کوئی یہ بھی پوچھے
کون سی حور ہے جنت میں جو دنیا میں نہیں
کون سی آگ ہے گہوارۂ دوزخ میں کہ جو
اپنے نزدیک کے اصحابِ دل آرا میں نہیں
بہت خوب ! مصطفیٰ زیدی تو کمال اینگری ینگ مین تھا
 

عامر فنا

محفلین
اے سوگوار! یاد بھی ہے تجھ کو یا نہیں
وہ رات، جب حیات کی زلفیں دراز تھیں

جب روشنی کے نرم کنول تھے بجھے بجھے
جب ساعتِ ابد کی لویں نیم باز تھیں

جب ساری زندگی کی عبادت گذاریاں
تیری گناہ گار نظر کا جواز تھیں

اک ڈوبتے ہوئے نے کسی کو بچا لیا
اک تیرہ زندگی نے کسی کو نگاہ دی

ہر لمحہ اپنی آگ میں جلنے کے باوجود
ہر لمحہ زمہریرِ محبت کو راہ دی

ہم نے تو تجھ سے دور کی ہمدردیاں دکھائیں
تو نے کسی سے رسمِ وفا بھی نباہ دی

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top