مصطفیٰ زیدی تعمیر ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
تعمیر

اپنے سینے میں دبائے ہوئے لاکھوں شعلے
شبنم و برف کے نغمات سنائے میں نے
زیست کے نوحۂ پیہم سے چرا کر آنکھیں
گیت جو گا نہ سکے کوئی وہ گائے میں نے

آج تشبیہ و کنایات کا دل ٹوٹ گیا
آج میں جو بھی کہوں گا وہ حقیقت ہو گی
آنچ لہرائے گی ہر بوند سے پیمانے کی
میرے سائے کو مری شکل سے وحشت ہو گی

غمِ دوراں نے غمِ دل کا سکوں چھیں لیا
اب ترے پیار میں بھی پیار کے انداز نہیں
شوق کے قلعۂ تاریک میں ہے سناٹا
کوئی آواز نہیں ۔۔ کوئی بھی آواز نہیں

کیسے سمجھاؤں کہ الفت ہی نہیں حاصلِ عمر
حاصلِ عمر اس الفت کا مداوا بھی تو ہے
زندگی حسرتِ خس خانہ و برفاب سہی
کچھ دہکتے ہوئے شعلوں کی تمنا بھی تو ہے

تو مرا خواب ہے، آدرش ہے، لیکن مجھ کو
تیرے اس قصرِ طرب ناک سے جانا ہو گا
آگ اور خون اگلتے ہوئے سیارے کو
پھر ترا قصرِ طرب ناک بنانا ہو گا

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top