مصطفیٰ زیدی تشنگی ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
تشنگی

آپ نے جس کو فقط جنس سے تعبیر کیا
ایک مجبور تخیل کی خود آرائی تھی
ایک نادار ارادے سے کرن پھوٹی تھی
جس کے پس منظرِ تاریک میں تنہائی تھی

دلِ ناداں نے چمکتی ہوئی تاریکی کو
اپنے معیار کی عظمت کا اُجالا سمجھا
ہائے وہ تشنگیِ ذہن و تمنا جس نے
جب بھی صحرا پہ نظر کی اُسے دریا سمجھا

ناز تھا مجھ کو جن اوصافِ حکیمانہ پر
کیسے رندانہ اشاروں پہ بہک جاتے ہیں
لڑکھڑاتے ہیں خیالات مرے سینے میں
راہ رَو جیسے بیاباں میں بھٹک جاتے ہیں

اپنی محفل کی بھی کیا بات ہے جس سے اکثر
دوست اٹھتا ہے تو یوں جیسے عدو ہوتا ہے
ایسے ملتا ہے محبّت کو ہَوس کا الزام
ایسے برسوں کی ریاضت کا لہو ہوتا ہے

(مصطفٰی زیدی از روشنی )
 
Top