مصطفیٰ زیدی ارتقا ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
اِرتقا

یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سنّاٹے میں
رات کے سینے سے کتنے ہی گجر پھوٹے ہیں

عقل کو آج بھی ہے تشنہ لبی کا اقرار
سینکڑوں جام اٹھے، سینکڑوں دل ٹوٹے ہیں

زلزلے آئے ہیں ادراک کی بنیادوں میں
عشق کا جذبۂ محکم بھی سہارا نہ بنا

ایک شعلے کو بھی حاصل نہ ہوا رقصِ دوام
ایک آنسو بھی مقدر سے ستارا نہ بنا

کس کو معلوم کہ اجداد پہ کیا کچھ گذری
خوں سے آلودہ ہیں اس راہ پہ قدموں کے نشاں

انہی راہوں سے پیمبر بھی گئے، ملحد بھی
انہی راہوں پہ بھٹکتا رہا بے بس انساں

زندگی ایک ستائے ہوئے طائر کی طرح
پھڑپھڑاتی رہی تاریخ کی زنجیروں میں

اور سقراط و فلاطون و ارسطو کا لہو!
رنگ بھرتا رہا لمحات کی تصویروں میں

کون سے جال نہ ڈالے گئے ہر مرکز پر
کیا جیالے تھے کہ جو مائلِ پرواز رہے

ابدیت کے نشاں لمحۂ نازک کے نقوش
بشریّت کے لیے راز تھے اور راز رہے

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top