غزل
لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں
گو کہانی سی کہانی بھی نہیں
چاندنی ٹھہری تھی اِس آنگن میں کل
اب کوئی اس کی نشانی بھی نہیں
رابطہ ہے پر زماں سے ماورا
فاصلہ ہے اور مکانی بھی نہیں
حالِ دل کہنا بھی چاہتا ہے یہ دل
اور یہ خفّت اُٹھانی بھی نہیں
غم ہے لیکن روح پر طاری نہیں
شادمانی، شادمانی بھی نہیں...