انور شعور غزل ۔ میں خاک ہوں، آب ہوں، ہوا ہوں ۔ انور شعورؔ

محمداحمد

لائبریرین

غزل

میں خاک ہوں، آب ہوں، ہوا ہوں
اور آگ کی طرح جل رہا ہوں

تہہ خانۂ ذہن میں نہ جانے
کیا شے ہے جسے ٹٹولتا ہوں

دُنیا کو نہیں ہے مری پروا؟
میں کب اُسے گھاس ڈالتا ہوں

بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے
جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں

اچھوں کو تو سب ہی چاہتے ہیں
ہے کوئی؟ کہ میں بُرا ہوں

پاتا ہُوں اُسے بھی اپنی جانب
مُڑ کر جو کسی کو دیکھتا ہوں

بچنا ہے مُحال اِس مرض میں
جینے کے مرض میں مبتلا ہوں

اوروں سے تو اجتناب تھا ہی
اب اپنے وجود سے خفا ہوں

باقی ہیں جو چند روز وہ بھی
تقدیر کے نام لکھ رہا ہوں

کہتا ہوں ہر ایک بات سُن کر
یہ بات تو میں بھی کہہ چُکا ہوں
انور شعورؔ
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے​
جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں​

کیا بات ہے۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ بہت خوب انتخاب!
 

محمداحمد

لائبریرین
بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے


جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں


کیا بات ہے۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ بہت خوب انتخاب!
لاجواب، ایک اور انتہائی خوبصورت غزل۔

بہت شکریہ احمد صاحب۔

شکریہ، تمام احباب کا۔
 
Top