انور شعور غزل ۔ ختم ہر اچھا بُرا ہو جائے گا ۔ انور شعور

محمداحمد

لائبریرین
غزل

ختم ہر اچھا بُرا ہو جائے گا
ایک دن سب کچھ فنا ہوجائے گا

کیا پتہ تھا، دیکھنا اُس کی طرف
حادثہ اتنا بڑا ہو جائے گا

مدّتو ں سے بند دروازہ کوئی
دستکیں دینے سے وا ہو جائے گا

ہے ابھی تک اُس کے آنے کا یقیں
جیسے کوئی معجزہ ہو جائے گا

مُسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے
اِ س طرح کیا حق ادا ہوجائے گا؟

کاش ہو جاؤ مرے ہمراہ تم
ورنہ کوئی دوسرا ہو جائے گا

کل کا وعدہ، اور اِس بحران میں؟
جانے کل دنیا میں کیا ہو جائے گا

"رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو"
ظلم جب حد سے سوا ہو جائے گا

آپ کا کچھ بھی نہ جائے گا شعورؔ
ہم غریبوں کا بھلا ہو جائے گا

انور شعورؔ

 
Top