انور شعور غزل ۔ نہ سہ سکوں گا غمِ ذات گو اکیلا میں ۔ انور شعور

محمداحمد

لائبریرین
غزل

نہ سہ سکوں گا غمِ ذات گو اکیلا میں
کہاں تک اور کسی پر کروں بھروسا میں

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اُس کے بعد
کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

نہ صرف یہ کہ زمانہ ہی مجھ پہ ہنستا ہے
بنا ہوا ہُوں خود اپنے لئے تماشا میں

مجھے سمیٹنے آیا بھی تھا کوئی ؟ جس دن
دیار و دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں

نہ میں کسی کے لئے ہُوں نہ کوئی میرے لئے
یہ زندگی ہے تو کیا میری زندگی ، کیا میں

پڑا رہوں نہ قفس میں تو کیا کروں آخر
کہ دیکھتا ہوں بڑی دور تک دھندلکا میں

اب اس قدر نہ ستاؤ کہ سانس اُکھڑ جائے
بساط سے کہیں بڑھ کر ہوا ہوں رسوا میں

میں خاک ہی سے بنا تھا تو کاش یوں ہوتا
کہ اُس کے ہاتھ سے گرتے ہی ٹوٹ جاتا میں

انور شعور
 

محمداحمد

لائبریرین

کیا خوبصورت غزل ہے۔

بہت شکریہ احمد صاحب

میں خاک ہی سے بنا تھا تو کاش یوں ہوتا
کہ اُس کے ہاتھ سے گرتے ہی ٹوٹ جاتا میں

بہت خوب:peacesign:


:aadab:
 
Top