غزلِ
ساغرصدیقی
سُوکھ گئے پت جھڑ میں پات
ٹُوٹ گئے پُھولوں کے ہات
کتنا نازُک ہے یہ دَور
اشک گِراں غم کی بُہتات
دشتِ الم کی ویرانی میں
کاٹی ہے برکھا کی رات
ہم دیوانے، ہم آوارہ
چل نہ سکو گے اپنے سات
ساغر مے خانے میں ہوگا
چھوڑ بھی دو پگلے کی بات
ساغر صدیقی
اکبرالہٰ آبادی
ملک میں مجھ کو ذلِیل و خوار رہنے دیجئے
آپ اپنی عزّتِ دربار رہنے دیجئے
دل ہی دل میں باہمی اِقرار رہنے دیجئے
بس خُدا ہی کو گواہ اے یار رہنے دیجئے
اِتّقا کا آج کل اِظہار رہنے دیجئے
آپ ہی یہ غمزہ و اِنکار رہنے دیجئے
دیکھئے گا لُطف، کیا کیا گُل کِھلیں گے شوق سے
مجھ کو آپ اپنے...
غزلِ
فرحت شہزاد
کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا
یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا
مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے...
غزلِ
اکبر الہٰ آبادی
اے فلک دل کی ترقّی کا جو ساماں ہوتا
طاعتِ حق کا سِتارہ بھی درَخشاں ہوتا
جان لیتا جو شبستانِ فنا کا انجام
صُورتِ شمْع ہراِک بزْم میں گریاں ہوتا
غُنْچہ مُرجھا کے گِرا شاخ سے افسوس نہ کر
کِھل بھی جاتا تو یہی تھا کہ پریشاں ہوتا
ناصحا نالہ و زاری پہ ملامت ہے عبث
چُپ...
غزلِ
شفیق خلش
پھر خیالِ دلِ بیتاب ہی لایا ہوگا
کون آتا ہے یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
خوش خیالی ہی مِری کھینچ کے لائی ہوگی
در حقیقت تو مِرے در وہ نہ آیا ہوگا
کیا کہیں ہجرکے ایّامِ عقوبت کا تمہیں
کیا ستم دیکھ کے تنہا نہیں ڈھایا ہوگا
ممکنہ راہوں پہ ہم حسرتِ دید اُن کی لئے
عمر بھر بیٹھے، بس اک روز...
غزلِ
شفق خلش
نظر سے میری جو پردے ہٹا دِئے رب نے
تماشے سب کے ہوں جیسے لگا دِئے رب نے
دِکھا کے آج سرِ راہ اُن کو پھر سے ہمیں
تمام لوگ نظر سے ہٹا دِئے رب نے
خیالِ یار سے راحت ہے زندگی میں مُدام
نشاط و کیف سب اِس میں بسا دِئے رب نے
حَسِین ایک نظارہ نہیں جُدا اُن سے
سب اُن کی دِید میں جلوے...
غزلِ
عاجزحبیب ملک
تلاشِ ذات میں صاحب یہ واقعہ بھی ہُوا
میں اپنی ذات سے اُلجھا بھی اورجُدا بھی ہُوا
کہیں ہُوا ہے وہ ظاہر، کہیں چُھپا بھی ہُوا
وہ بھید ہے تو، مگر ہم پہ ہے کُھلا بھی ہُوا
مِری ہی ذات، مجھے چار سُو دِکھائی دی
میں جُستجُو میں تِری ایک آئینہ بھی ہُوا
خودی کی ڈھونڈ میں مجھ کو وہ...
غزلِ
شفیق خلش
راہوں میں تِری بیٹھنے والا نہ مِلے گا
ہم جیسا تجھے سوچنے والا نہ مِلے گا
گو دیکھنے والوں کی کمی تو نہیں ہوگی
پر میری طرح دیکھنے والا نہ مِلے گا
شاید کئی بن جائیں تِرے چاہنے والے
مجھ جیسا مگر پُوجنے والا نہ مِلے گا
مِل جائیں گے دُنیا میں حَسِیں یوں تو ہزاروں
دل ایسا کوئی...
غزلِ
شفیق خلش
نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے
جو چھوڑ آئے تھے جاناں تمھارے جانے پر
وہ یاد آتے ہیں اب بھی تو بام و در میرے
نہیں ہوں جن کی مسافت میں کچُھ مِلن کے گمُاں
سُکون دیتے ہیں مجھ کو وہی سفر میرے
وہاں رہا نہ کوئی، اور یہاں کُھلا نہ کوئی
نہیں...
غزل
(2)
باقرزیدی
دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں
ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفر کرتے ہیں
جب سراپے پہ کہیں اُن کی نظر کرتے ہیں
میر صاحب کی طرح عمْربسر کرتے ہیں
بندشیں ہم کو کسی حال گوارا ہی نہیں
ہم تو وہ لوگ ہیں دِیوار کو در کرتے ہیں
وقت کی تیز خرامی ہمیں کیا روکے گی!
جُنبشِ کلک سے...
غزل
(1)
باقرزیدی
بالا نشینِ مسندِ دربار ہم نہ تھے
شاہوں کی سلطنت کے وفادار ہم نہ تھے
نقدِ سُخن تھے حرفِ سُبکبار ہم نہ تھے
غالب کے قدرداں تھے طرفدار ہم نہ تھے
ایسا نہیں ہُوا کہ سرِ دار ہم نہ تھے
مانا کہ اُس قبیلے کے سردار ہم نہ تھے
وہ حُبِ ذات جس نے ڈبویا ہے قوم کو
اُس لشکرِ اَنا کے...
غزلِ
شفیق خلش
خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں
کہاں وفا کی وہ دُشوارِیوں سے ڈرتے ہیں
ہر اِک سے، سر نہیں ہوتی ہے منزلِ مقصُود
بہت سے، راہِ طلب میں تڑپ کے مرتے ہیں
ڈریں ہم آگ کے دریا کے کیوں تلاطُم سے
نہیں وہ ہم ، جو نہیں ڈوب کر اُبھرتے ہیں
جنہیں نہ عشق میں حاصل ہو وصل کی راحت
وہ...
مرزا اسداللہ خاں غالب
وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو
ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو...
٢
ہی قافیہ میں جناب بہزاد لکھنوی کی ایک بہت خُوب غزل:
اب ہے خوشی، خوشی میں نہ غم ہے ملال میں !
دُنیا سے کھو گیا ہُوں تمہارے خیال میں
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں، ہوکے مست تمھارے خیال میں
تاروں سے پُوچھ لو مِری رُودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہُوں تمہارے خیال میں...
غزلِ
ماجد صدیقی
دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
میں کہاں ہُوں، مُجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
دل میں جو کچُھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
کاش ہونٹوں پہ مِرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یکجا میری
میرا کھلیان، نہ بیدرد جَلا دے کوئی
وہ تو ہوگا جو مِرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے ...
اکبرالہٰ آبادی
کہوں کِس سے قصۂ درد وغم، کوئی ہمنشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے، تِری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں، میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اِس کی خبر نہ تھی، تِرا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوِید اَوروں کو جا سُنا، ہم اسیرِ دام ہیں، اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ...
فانی بدایونی
بیداد کے خُوگر تھے، فریاد تو کیا کرتے !
کرتے، تو ہم اپنا ہی، کچھ تم سے گلہ کرتے
تقدیرِ محبّت تھی، مر مر کے جئے جانا
جینا ہی مُقدّر تھا، ہم مر کے بھی کیا کرتے
مُہلت نہ مِلی غم سے، اتنی بھی کہ حال اپنا !
ہم آپ کہا کرتے، ہم آپ سُنا کرتے
نادم اُسے چاہا تھا ، جاں اُس پہ فِدا...
پروین شاکر
منظر ہے وہی ٹھٹک رہی ہُوں
حیرت سے پلک جھپک رہی ہُوں
یہ تُو ہے، کہ میرا واہمہ ہے!
بند آنکھوں سے تجھ کو تک رہی ہُوں
جیسے کہ ، کبھی نہ تھا تعارف
یوں مِلتے ہوئے جِھجَک رہی ہُوں
پہچان! میں تیری روشنی ہُوں
اور تیری پلک پلک رہی ہُوں
کیا چَین مِلا ہے، سر جو اُس کے
شانوں پہ رکھے سِسک...
مولانا حسرت موہانی
عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں
یہ ہمیں ہیں، کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے بے خبر جائیں
جامہ زیبی نہ پوچھیے اُن کی !
جو بگڑنے میں بھی سنور جائیں
اُن کو مدّ ِ نظر ہُوا پردا
اہلِ شوق اب کہو کِدھر جائیں
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں...