شفیق خلش :::: خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں -- Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
شفیق خلش

خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں
کہاں وفا کی وہ دُشوارِیوں سے ڈرتے ہیں

ہر اِک سے، سر نہیں ہوتی ہے منزلِ مقصُود
بہت سے، راہِ طلب میں تڑپ کے مرتے ہیں


ڈریں ہم آگ کے دریا کے کیوں تلاطُم سے
نہیں وہ ہم ، جو نہیں ڈوب کر اُبھرتے ہیں


جنہیں نہ عشق میں حاصل ہو وصل کی راحت
وہ داستانوں کے عنوان بن نکھرتے ہیں

تمھارے ہجرکے لائے ہوئے یہ روزوشب
بجز تمھارے ہی آئے کہاں سُدھرتے ہیں

صُعُوبَتوں کے نِشاں تک تو سب مِٹا ڈالے
مُفارقت کے لگے داغ کب اُترتے ہیں

خلش جو ساتھ ہوں راتوں کو چاندنی کی طرح
وہی تو صبح کو سُورج بنے اُبھرتے ہیں


شفیق خلش
 
مدیر کی آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
بہت عمدہ انتخاب۔۔۔ بہت شکریہ جناب
جزاکم اللہ خیرا۔

شاعر کا نام بھی خوب ہے ۔۔۔ اول بھی ش آخر بھی ش

تشکّر اظہارِخیال اور انتخاب کی پذیرائی پر جناب!
خوشی جو منتخب غزل اپسند آئی ، ش ، ش پر خیال نہیں گیا
آپ کی توجہ دلانے پر اول آخر پر ش کا پتہ چلا :)
بہت خوش رہیں :)
 
Top