بہزاد لکھنوی بہزاد لکھنوی :::: اب ہے خوشی خوشی میں نہ غم ہے ملال میں -- Behzaad Lakhnavi

طارق شاہ

محفلین
٢
ہی قافیہ میں جناب بہزاد لکھنوی کی ایک بہت خُوب غزل:


3w90.jpg

اب ہے خوشی، خوشی میں نہ غم ہے ملال میں !
دُنیا سے کھو گیا ہُوں تمہارے خیال میں

مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
بیٹھا ہوں، ہوکے مست تمھارے خیال میں

تاروں سے پُوچھ لو مِری رُودادِ زندگی
راتوں کو جاگتا ہُوں تمہارے خیال میں

دُنیا کو عِلم کیا ہے، زمانے کو کیا خبر !
دُنیا بُھلا چُکا ہُوں تُمھارے خیال میں

دُنیا کھڑی ہے مُنتظرِ نغمۂ الم
بہزاد چُپ کھڑا ہے کِسی کے خیال میں

بہزاد لکھنوی


 
مدیر کی آخری تدوین:

کاشفی

محفلین
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہُوں میں تمہارے خیال میں

بہت عمدہ جناب!
 

عمر سیف

محفلین
دُنیا کو عِلم کیا ہے، زمانے کو کیا خبر !
دُنیا بُھلا چُکا ہُوں تُمھارے خیال میں

آہا ۔۔ واہ
 

طارق شاہ

محفلین
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہُوں میں تمہارے خیال میں

بہت عمدہ جناب!
کاشفی صاحب ، اس منتخبہ غزل پر اظہار خیال اور پذیرائی پرتشکّر
خوشی ہوئی جو پیش کردہ یہ غزل آپ کو پسند آئی
بہت خوش رہیں :)
 

طارق شاہ

محفلین
شاعر کی کافئے پر گرفت کافی کمزور نظر آئی
جناب ندیم مراد صاحب!
خوش آمدید ،
منتخبہ غزل پر آپ کے اظہار خیال کے لئے تشکّر ! مگر اس سے ذرا تشنگی رہ گئی
کہ اس طرح آپ کے لکھنے سے، یہ جاننے کا اشتیاق بھی پیدا ہوگیا کہ
وہ کیا مُمکنہ صُورتِ تشکیل ہے، جو آپ کی نظر نے دیکھا اور ہماری نظر سے نہاں رہا
یا جس کے وقوع پذیر ہونے سے شعر مزید بہتر یا خوب ہوسکتا تھا؟

اگر آپ اپنے نکتۂ نظر کی ذرا سی وضاحت، یا قوافی کا خوب استعمال، خواہ ایک آ دھ شعر میں ہی
دِکھلا دیتے تو بات آسانی سے نہ صرف سمجھ میں بھی آجاتی بلکہ باعثِ اضافۂ علم بھی ہوتا شاید
امید ہے اس سلسلے میں ضرور ہماری معاونت کرکے مزید ممنون کریں گے ۔

تشکّر ایک بار پھر سے اظہار خیال کے لئے
بہت خوش رہیں :):)
 

طارق شاہ

محفلین

طارق شاہ

محفلین
بہت عمدہ انتخاب۔۔۔ بہت شکریہ جناب
جزاکم اللہ خیرا۔
اس شعر کا دوسرا مصرع شاید کچھ تبدیل ہوکر بے وزن ہوگیا ہے:
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہُوں میں تمہارے خیال میں

ممکن ہے یوں ہو:
بیٹھا ہوں مست ہوکے تمھارے خیال میں
یا
بیٹھا ہوں ہوکے مست تمھارے خیال میں
یا کچھ اور۔۔۔
 

طارق شاہ

محفلین
بہت عمدہ انتخاب۔۔۔ بہت شکریہ جناب
جزاکم اللہ خیرا۔
اس شعر کا دوسرا مصرع شاید کچھ تبدیل ہوکر بے وزن ہوگیا ہے:
مُجھ کو نہ اپنا ہوش، نہ دُنیا کا ہوش ہے
مست ہو کے بیٹھا ہُوں میں تمہارے خیال میں

ممکن ہے یوں ہو:
بیٹھا ہوں مست ہوکے تمھارے خیال میں
یا
بیٹھا ہوں ہوکے مست تمھارے خیال میں
یا کچھ اور۔۔۔
جی ٹائپو ہے ، معذرت خواہ ہوں سب سے ہی کہ غور یا نظر ثانی نہیں کی ٹائپنگ کے بعد ۔ آپ کا دوسرا لکھا مصرع درست ہے
" بیٹھا ہوں، ہوکے مست تمھارے خیال میں "
امید ہے بلکہ گزارش ہے خلیل الرحمان بھائی سے غزل میں درست کردیں
زحمت کے لئے معذرت
 

ندیم مراد

محفلین
جناب ندیم مراد صاحب!
خوش آمدید ،
منتخبہ غزل پر آپ کے اظہار خیال کے لئے تشکّر ! مگر اس سے ذرا تشنگی رہ گئی
کہ اس طرح آپ کے لکھنے سے، یہ جاننے کا اشتیاق بھی پیدا ہوگیا کہ
وہ کیا مُمکنہ صُورتِ تشکیل ہے، جو آپ کی نظر نے دیکھا اور ہماری نظر سے نہاں رہا
یا جس کے وقوع پذیر ہونے سے شعر مزید بہتر یا خوب ہوسکتا تھا؟

اگر آپ اپنے نکتۂ نظر کی ذرا سی وضاحت، یا قوافی کا خوب استعمال، خواہ ایک آ دھ شعر میں ہی
دِکھلا دیتے تو بات آسانی سے نہ صرف سمجھ میں بھی آجاتی بلکہ باعثِ اضافۂ علم بھی ہوتا شاید
امید ہے اس سلسلے میں ضرور ہماری معاونت کرکے مزید ممنون کریں گے ۔

تشکّر ایک بار پھر سے اظہار خیال کے لئے
بہت خوش رہیں :):)
جی جی ضرور وضاحت کریں گے
دیکھئے قافیہ کہتے ہیں ہم آواز الفاظ کو جو عربی شاعری میں مصرعوں کے آخر میں آتا تھا، اور فارسی والوں نے اس میں ردیف کا اضافہ ایک خوبصورت اضافہ کیا جسے اردو اور برِصغیر کی ہر اس زبان جس میں شاعری ہوتی ہے، اس زبان کے شعراء نے اڈاپٹ کر لیا ،ردیف کہتے ہیں وہ الفاظ جو مصرعوں کے آخر میں قافیے کے بعد بار بار آتے ہیں اور شاعر انہیں دہراتا ہے،مندرجہ بالا غزل میں چونکہ ہر دوسرے مصرعے میں جو قافیہ ہے بہ انداز ردیف کے دہرایا جا رہا ہے۔
ایک اور بات غزل کا پہلا شعر متلع کہلاتا ہے ، اگر مطلے میں ملال کا قافیہ نہ ہوتا تو یہ کلام غزل کی تعریف پر ہی پورا نہ اترتا، مطلعے کے بعد صرف ایک ہی قافیہ استعمال ہوا اور وہ تھا خیال، میرے خیال میں خیال کی اسقدر تکرار اسے ردیف میں تبدیل کر رہی ہے اور قافیہ ندارد،
معزرت کے ساتھ محفل میں مجھے ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے، مجھے یہاں کے رواج کا ابھی اندازہ نہیں کہ آپ حضرات تنقید کو کیسے برتاؤ کرتے ہیں اور تنقید نگار کو کتنی عزت ملتی ہے یا اسے بھیجا فرائی ہی سمجھا جاتا ہے، آہستہ آہستہ سیکھنے کو ملےگا، انشاءاللہ
دعاؤں کا طلب گار ندیم مراد عفی عنہ
 

طارق شاہ

محفلین
ندیم مراد صاحب !
خوش آمدید ایک بار پھر سے ! اور تشکّر جواب کے لئے

اگر مطلے میں ملال کا قافیہ نہ ہوتا تو یہ کلام غزل کی تعریف پر ہی پورا نہ اترتا،
مطلع کے مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی میں ملال اور خیال دو مختلف قافیہ کی وجہ سے یہ غزل ٹھہری۔
صحیح کہا آپ نے یہ تو شرط اول ہے غزل کے لئے ۔ جس پہ بہزاد صاحب پورے اترے

دوسری شرط : دو مختلف قافیہ مطلع کے مصرع اولیٰ اور مصرع ثانی میں ، اور دونوں قوافی کے بعد والا آنے والا یکساں لفظ یا جملہ ہو
جو ردیف کہلاتا ، ا ور مطلع کے بعد تمام اشعار مقطع سمیت کے دوسرے مصرعہ کیلئے بھی یہی ضروری ہے، کی شرط پر بھی بہزاد صاحب پورے اترے

بعد والے تمام اشعار(بشمول مقطع) جداگانہ قافیہ ہو ، یا قوافی کی تکرار نہ کی جائے کوئی شرط
نہیں رکھی گئی ہے علم عروض میں
۔


میرے خیال میں خیال کی اسقدر تکرار اسے ردیف میں تبدیل کر رہی ہے اور قافیہ ندارد،
ندیم مراد صاحب آپ اپنے خیال اور سمجھ کے بل پوتے پر کسی کے کلام یا مکمل نظام کو رد یا اس میں تبدیلی تو نہیں لاسکتے
مستند بات ہو اور باقائدہ سند اور حوالوں سے کی جائے تو اس کی بات کچھ اور ہے کہ اس سے رائج اصولوں پر ہی بات ہوتی ہے


مطلع قافیہ اور ردیف مقرر کرچکا ۔
( اب اس ردیف میں کوئی اضافت قبول نہیں والی بات اور شرط ذہن میں رکھیں )


میں سمجھا آپ نے کہا تھا کہ شعر میں قوافی پر گرفت صحیح نہیں ، جس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ قوافی صحیح نہیں برتے گئے
یہ ان کی بستگی درست یا راست مفہوم میں نہیں
اور آپ گرفت کے متعلق شاید کچھ بتائیں یا سکھائیں گے
خیر تشکّر جواب کے لئے ، بہت خوش رہیں :):)
 
آخری تدوین:
Top