نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    ناصر کاظمی جب تک لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے ۔ ناصر کاظمی

    غزل جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے ذرے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے گونگا ہے تو لب بستوں سے آدابِ سخن سیکھ اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے چمک لے ناصر...
  2. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تشنگی ۔ مصطفیٰ زیدی

    تشنگی آپ نے جس کو فقط جنس سے تعبیر کیا ایک مجبور تخیل کی خود آرائی تھی ایک نادار ارادے سے کرن پھوٹی تھی جس کے پس منظرِ تاریک میں تنہائی تھی دلِ ناداں نے چمکتی ہوئی تاریکی کو اپنے معیار کی عظمت کا اُجالا سمجھا ہائے وہ تشنگیِ ذہن و تمنا جس نے جب بھی صحرا پہ نظر کی اُسے دریا سمجھا ناز تھا مجھ کو...
  3. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی سنّاٹا ۔ مصطفیٰ زیدی

    سنّاٹا آج پھر تم نے مرے دل میں جگایا ہے وہ خواب میں نے جس خواب کو رو رو کے سُلایا تھا ابھی کیا ملا تم کو انہیں پھر سے فروزاں کر کے میں نے دہکے ہوئے شعلوں کو بجُھایا تھا ابھی میں نے کیا کچھ نہیں سوچا تھا مری جانِ غزل کہ میں اس شعر کو چاہوں گا، اسے پوجوں گا اپنی ترسی ہوئی آغوش میں تارے بھر کے...
  4. فرخ منظور

    میر ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ ۔ میر تقی میر

    ہم ہیں مجروح ماجرا ہے یہ وہ نمک چھڑکے ہے مزہ ہے یہ آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ بود آدم نمود شبنم ہے ایک دو دم میں پھر ہوا ہے یہ شکر اس کی جفا کا ہو نہ سکا دل سے اپنے ہمیں گلہ ہے یہ شور سے اپنے حشر ہے پردہ یوں نہیں جانتا کہ کیا ہے یہ بس ہوا ناز ہو چکا اغماض ہر گھڑی ہم...
  5. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی انتہا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اِنتہا پھر آج یاس کی تاریکیوں میں ڈوب گئی ! وہ اک نوا جو ستاروں کو چُوم سکتی تھی سکوتِ شب کے تسلسل میں کھو گئی چپ چاپ جو یاد وقت کے محور پہ گھوم سکتی تھی ابھی ابھی مری تنہائیوں نے مجھ سے کہا کوئی سنبھال لو مجھ کو ، کوئی کہے مجھ سے ابھی ابھی کہ میں یوں ڈھونڈتا تھا راہِ فرار پتا چلا کہ...
  6. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی کردار ۔ مصطفیٰ زیدی

    کردار خیال و خواب کی دنیا کے دل شکستہ دوست تری حیات مری زندگی کا خاکہ ہے غمِ نگار و غمِ کائنات کے ہاتوں ! ترے لبوں پہ خموشی ہے،مجھ کو سَکتہ ہے مری وفا بھی ہے زخمی تری وفا کی طرح یہ دل مگر وہی اک تابناک شعلہ ہے ترا مزار ہے اینٹوں کا ایک نقشِ بلند مرا مزار مرا دل ہے ، میرا چہرہ ہے جو...
  7. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی وہ اجنبی ۔ مصطفیٰ زیدی

    وہ اجنبی وہ مہر و ماہ و مشتری کا ہم عناں کہاں گیا وہ اجنبی کہ تھا مکان و لامکاں کہاں گیا ترس رہا ہے دل کسی کی داوری کے واسطے پیمبرانِ نیم جاں خدائے جاں کہاں گیا وہ ملتفت بہ خندہ ہائے غیر کس طرف ہے آج وہ بے نیازِ گریہ ہائے دوستاں کہاں گیا وہ ابر و برق و باد کا جلیس ہے کدھر نہاں وہ عرش و فرش و...
  8. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی ارتقا ۔ مصطفیٰ زیدی

    اِرتقا یوں تو اس وقت کے پھیلے ہوئے سنّاٹے میں رات کے سینے سے کتنے ہی گجر پھوٹے ہیں عقل کو آج بھی ہے تشنہ لبی کا اقرار سینکڑوں جام اٹھے، سینکڑوں دل ٹوٹے ہیں زلزلے آئے ہیں ادراک کی بنیادوں میں عشق کا جذبۂ محکم بھی سہارا نہ بنا ایک شعلے کو بھی حاصل نہ ہوا رقصِ دوام ایک آنسو بھی مقدر سے ستارا نہ...
  9. فرخ منظور

    داغ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ۔ داغ دہلوی

    شرابِ ناب ہے ہر رنگ کی اپنے پیالے میں وہ طرّہ کونسا گل میں ہے کیا ہے شاخِ لالے میں فغاں میں آہ میں فریاد میں شیوہ میں نالے میں سناؤں دردِ دل طاقت اگر ہو سننے والے میں نہ کیوں ہولاکھ مستانہ ادائیں میرے نالے میں گدائے میکدہ ہوں ہر طرح کی ہے پیالے میں بغل میں دل نہیں معشوق ہے اور وہ بھی ہے تم سا...
  10. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی شطرنج ۔ مصطفیٰ زیدی

    شطرنج عزیز دوست مرے ذہن کے اندھیرے میں ترے خیال کے دیپک بھٹک رہے ہیں ابھی کہاں سے ہو کے کہاں تک حیات آ پہنچی اداس پلکوں پہ تارے چھلک رہے ہیں ابھی ترے جمال کو احساسِ درد ہو کہ نہ ہو بجھے پڑے ہیں ترانے ستار زخمی ہیں حیات سوگ میں ہے بےزبان دل کی طرح کہ نوجوان امنگوں کے ہار زخمی ہیں مرے...
  11. فرخ منظور

    کلیم عاجز کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے ۔ کلیم عاجز

    کیا غم ہے اگر شکوۂ غم عام ہے پیارے توُ دِل کو دُکھا.، تیرا یہی کام ہے پیارے! تیرے ہی تبسّم کا سحر نام ہے پیارے! توُ کھول دے گیسوُ تو بھری شام ہے پیارے جب پیار کیا، چین سے کیا کام ہے پیارے؟ اِس میں تو تڑپنے ہی میں آرام ہے پیارے چھوُٹی ہے، نہ چھوُٹےگی کبھی پیار کی عادت ہم خوُب سمجھتے ہیں جو...
  12. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی تجدید ۔ مصطفیٰ زیدی

    تجدید اُس کی بے باکیوں میں غصّہ تھا اس کے غصّے میں پیار تھا ساتھی آج اس نوبہار کے رُخ پر کس غضب کا نکھار تھا ساتھی ایک سرکش امنگ سینے میں اس طرح اپنا سر اٹھاتی تھی اس کے نم عارضوں کے سائے میں اس کی سانسوں کی آنچ آتی تھی اس کا شکوہ کہ شعر لکھ لکھ کر آپ نے کر دیا مجھے بدنام ایک افسانہ ہے...
  13. فرخ منظور

    مکمل جلا وطن ۔ قرۃ العین حیدر

    جلاوطن (افسانہ) تحریر: قرۃ العین حیدر سندر لالہ۔ سجے دلالہ۔ ناچے سری ہری کیرتن میں ناچے سری ہری کیرتن میں ناچے چوکھٹ پر اکڑوں بیٹھی رام رکھی نہایت انہماک سے چاول صاف کررہی تھی۔ اس کے گانے کی آواز دیر تک نیچے گموں والی سنسان گلی میں گونجا کی۔ پھر ڈاکٹر آفتاب رائے صدر اعلیٰ کے چبوترے کی اور سے...
  14. فرخ منظور

    مکمل کلام ن م راشد (اوّل)

    ماورا
  15. فرخ منظور

    انشا اللہ خان انشا دلِ ستم زدہ بے تابیوں نے لُوٹ لیا ۔ انشاءاللہ خان انشا

    دلِ ستم زدہ بے تابیوں نے لُوٹ لیا ہمارے قبلہ کو وہابیوں نے لوٹ لیا کہانی ایک سنائی جو ہیر رانجھا کی تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا یہ موجِ لالۂ خود رو نسیم سے بولی کہ کوہ و دشت کو سیرابیوں نے لوٹ لیا صبا، قبیلۂ لیلیٰ میں اُڑ گئی یہ خبر کہ ناقۂ نجد اعرابیوں نے لوٹ لیا کسی طرح سے نہیں نیند...
  16. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی اگست 47 ء ۔ مصطفیٰ زیدی

    اگست 47 ء ابھی غبارِ سرِ کارواں نہیں بیٹھا عروسِ شب کی سواری گزر گئی ہے ضرور ابھی ہماری محبت پہ آنچ پڑنی ہے کسی کی زلف پہ افشاں بکھر گئی ہے ضرور ابھی بہت سے سویروں کو اوس پینی ہے کسی کی پھول سی رنگت نکھر گئی ہے ضرور ہمیں بھی بننا ہے اس التفات کے قابل وہ التفات کا وعدہ تو کر گئی ہے ضرور...
  17. فرخ منظور

    شاد عظیم آبادی نگہہ کی برچھیاں جو سہ سکے سینا اسی کا ہے ۔ شاد عظیم آبادی

    نگہہ کی برچھیاں جو سہ سکے سینا اسی کا ہے ہمارا آپ کا جینا نہیں، جینا اسی کا ہے یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے مکدّر یا مصفّا جس کو یہ دونوں ہی یکساں ہوں حقیقت میں وہی مے خوار ہے، پینا اسی کا ہے امیدیں جب بڑھیں حد سے طلسمی سانپ ہیں زاہد...
  18. فرخ منظور

    انشا اللہ خان انشا ہے ظلم، اُس کو یار کیا ، ہم نے کیا کیا ۔ انشاءاللہ خان انشاؔ

    ہے ظلم، اُس کو یار کیا ، ہم نے کیا کیا کیا جبر اختیار کیا، ہم نے کیا کیا داغوں سے اپنے سینہ سوز، ان کو اے نسیم یاں رشکِ نوبہار کیا، ہم نے کیا کیا اُس رشک گل کی خواہشِ بوس و کنار کو اپنے گلے کا ہار کیا، ہم نے کیا کیا؟ دستِ جنوں سے اپنے گریبانِ صبر کو اے عشق تار تار کیا، ہم نے کیا کیا اُس سنگ...
  19. فرخ منظور

    جولائی ایلیا کی موشگافیاں

    کتنا دبلا ہوں میں کتنی موٹی ہو تم کیا ستم ہے کہ ہم ایک ہو جائیں گے (جولائی ایلیا)
  20. فرخ منظور

    مصطفیٰ زیدی گسٹاپو ۔ مصطفیٰ زیدی

    گسٹاپو سفید پوش! ترے دل کی تیرگی کی قسم کہ تُو نے نجم و گہر کا خمیر بیچا ہے حقیر جاہ و حشم کے حصول کے بدلے دل و دماغ دیے ہیں، ضمیر بیچا ہے میں معترف ہوں کہ ہے میرا جرم حق گوئی مگر یہ مخبریِ حق، گناہ ہے کہ نہیں پیمبروں کے لہو سے بنی ہے جس کی بساط وہ شاہراہ تری شاہراہ ہے کہ نہیں حیات کے لئے...
Top