مصطفیٰ زیدی گسٹاپو ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
گسٹاپو

سفید پوش! ترے دل کی تیرگی کی قسم
کہ تُو نے نجم و گہر کا خمیر بیچا ہے

حقیر جاہ و حشم کے حصول کے بدلے
دل و دماغ دیے ہیں، ضمیر بیچا ہے

میں معترف ہوں کہ ہے میرا جرم حق گوئی
مگر یہ مخبریِ حق، گناہ ہے کہ نہیں

پیمبروں کے لہو سے بنی ہے جس کی بساط
وہ شاہراہ تری شاہراہ ہے کہ نہیں

حیات کے لئے بنیاد ہے نمودِ خیال
تجھے خبر نہیں انسان کیسے جیتا ہے

تری غذا میں شہیدوں کا خون شامل ہے
ترا وجود تعفن کا دودھ پیتا ہے

یہی نہیں کہ تجھے پست ذہن کہتے ہیں
وہ لوگ جن کی نظر آج آسمان پہ ہے

تجھے ذلیل سمجھتے ہیں خود رفیق ترے
ہے ان کے دل میں وہی جو مری زبان پہ ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ ولولوں کے چراغ
سمُومِ تُند کے باوصف جلتا رہتا ہے

درندگی کے مقدّر پہ ناچنے والے
درندگی کا مقدّر بدلتا رہتا ہے

بلندیوں پہ تشدّد کے مطربِ کہنہ
زمیں کے ساز پہ ہم لوگ گیت گائیں گے

نئی بہار ہمِیں سرکشوں کے ہاتھ میں ہے
نیا نظام ہمِیں منچلے بنائیں گے

(مصطفیٰ زیدی)
 

فرخ منظور

لائبریرین
گسٹاپو

سفید پوش! ترے دل کی تیرگی کی قسم
کہ تُو نے نجم و گہر کا خمیر بیچا ہے

حقیر جاہ و حشم کے حصول کے بدلے
دل و دماغ دیے ہیں، ضمیر بیچا ہے

میں معترف ہوں کہ ہے میرا جرم حق گوئی
مگر یہ مخبریِ حق، گناہ ہے کہ نہیں

پیمبروں کے لہو سے بنی ہے جس کی بساط
وہ شاہراہ تری شاہراہ ہے کہ نہیں

حیات کے لئے بنیاد ہے نمودِ خیال
تجھے خبر نہیں انسان کیسے جیتا ہے

تری غذا میں شہیدوں کا خون شامل ہے
ترا وجود تعفن کا دودھ پیتا ہے

یہی نہیں کہ تجھے پست ذہن کہتے ہیں
وہ لوگ جن کی نظر آج آسمان پہ ہے

تجھے ذلیل سمجھتے ہیں خود رفیق ترے
ہے ان کے دل میں وہی جو مری زبان پہ ہے

تجھے خبر نہیں شاید کہ ولولوں کے چراغ
سمُومِ تُند کے باوصف جلتا رہتا ہے

درندگی کے مقدّر پہ ناچنے والے
درندگی کا مقدّر بدلتا رہتا ہے

بلندیوں پہ تشدّد کے مطربِ کہنہ
زمیں کے ساز پہ ہم لوگ گیت گائیں گے

نئی بہار ہمِیں سرکشوں کے ہاتھ میں ہے
نیا نظام ہمِیں منچلے بنائیں گے

(مصطفیٰ زیدی)
 
Top