نژادِ نَو
برہنہ سر ہیں ، برہنہ تن ہیں ، برہنہ پا ہیں
شریر روحیں
ضمیر ہستی کی آرزوئیں
چٹکتی کلیاں
کہ جن سے بوڑھی ، اداس گلیاں
مہک رہی ہیں
غریب بچے ، کہ جو شعاعِ سحر گہی ہیں
ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں
وہ منزلیں ، جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں
ترس رہی ہیں
انہی کے قدموں میں بس رہی ہیں...