میر چمکنا برق کا کرتا ہے کارِ تیغ، ہجراں میں ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
چمکنا برق کا کرتا ہے کارِ تیغ، ہجراں میں
برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیرِ باراں میں

بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی جس کے گریباں میں
وہ کیا جانے کہ ٹکڑے ہیں جگر کے میرے داماں میں

کہیں شام و سحر رویا تھا مجنوں عشقِ لیلیٰ میں
ہنوز آشوب دونوں وقت رہتا ہے بیاباں میں

خیال یار میں آگے ہے یک مہ پارہ یاں ہر دم
اگر ہجراں میں زندانی ہوں پر ہوں یوسفستاں میں

رکھا عرصہ جنوں پر تنگ مشتاقوں کی دوری سے
کسے مارا ہے اس گھتیے نے سنمکھ ہوکے میداں میں

جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں

جو دیکھو تو نہیں یہ حال اپنا حسن سے خالی
دمک الماس کی سی ہے ہماری چشمِ حیراں میں

خرابی آگئی دینوں میں ملت گئی اسے دیکھے
ملے سے اس کے رخنے پڑ گئے لوگوں کے ایماں میں

نکل آتا ہے گھر سے ہر گھڑی ننگے بدن باہر
برا یہ آپڑا ہے عیب اس آسائشِ جاں میں

ستم کے تیر اس کے میرے سینے میں بہت ٹوٹے
کیا جاتا ہے مشکل فرق اب دل اور پیکاں میں

ہواے ابر میں کیا میرؔ ہنستا باغ میں وہ تھا
گری پڑتی ہے بجلی آج کچھ صحنِ گلستاں میں

(میر تقی میرؔ)
 
آخری تدوین:
Top