نتائج تلاش

  1. فرحان محمد خان

    غزل : جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا - وحید اختر

    غزل جس کو مانا تھا خدا خاک کا پیکر نکلا ہاتھ آیا جو یقیں وہم سراسر نکلا اک سفر دشتِ خرابی سے سرابوں تک ہے آنکھ کھولی تو جہاں خواب کا منظر نکلا کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا تھی تہی دست ہر اک شاخ خزاں تھی جب تک فصلِ گل آئی تو ہر شاخ سے خنجر...
  2. فرحان محمد خان

    غزل : کس نے دروازے پہ لکھیں اس قدر خاموشیاں - م - م - مغل

    غزل کس نے دروازے پہ لکھیں اس قدر خاموشیاں دستکوں کے درمیاں بھی مختصر خاموشیاں جُنبشِ لب سے سوا مہمان داری ہے غبث کچھ نہیں پاسِ تواضع کو مگر خاموشیاں چہرگی کی راکنی پر آئنوں کا اژدہام سر پٹختی پھر رہی ہیں در بہ در خاموشیاں وحیّ بے نام و نسب کاغذ پہ اُتری ہی نہیں اس لیے لکھی نہیں ہیں...
  3. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی غزل : تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دُور سمجھ- رئیس امروہوی

    غزل تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دُور سمجھ آپ اپنے سے اُلجھ جائیں تو معذور سمجھ تو بھی تو وضعِ محبت سے ہے ناچار بہت اُن کو بھی قاعدۂ ناز سے مجبور سمجھ آبگینوں کی طبیعت کا تقاضا ہے شکست دل شکستہ ہو کہ ثابت ہوں انھیں چُور سمجھ ابھی اس راہ میں کچھ نقشِ قدم ملتے ہیں شہرِ جاناں کو ابھی دُور بہت...
  4. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی نظم : جانِ من - رئیس امروہوی

    جانِ من جانِ من مجھ سے بجا ہے یہ شکایت تیری کہ مرے شعر میں ماضی کا وہ انداز نہیں اے مجھے حافظؔ و خیّام بنانے والی اب مرے شعر میں سر مستیِ شیراز نہیں جو تری روح کے نغموں کو جگا دیتی ہے اب مرے پاس وہ رعنائیِ آواز نہیں جو ہم آہنگ ترے زمزمۂ ناز سے تھا اب مرے بس میں وہ آہنگ فسوں ساز نہیں کاش...
  5. فرحان محمد خان

    غزل : قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا - صفی لکھنوی

    غزل قطرہ دریا ہے جہاں دریا میں شامل ہو گیا ڈوبتے ہی دل میں پیکانِ ستم دل ہو گیا دل ہلاکِ حسرتِ بیدادِ قاتل ہو گیا شکر ، ناکامی میں بھی مقصود حاصل ہو گیا ہے وہی اک قطرۂ خوں اے غمِ طاقت گراز آںکھ میں آنسو بنا سینے میں جو دل ہو گیا اک نگاہِ مستِ ساقی نے بڑھا دی قدرِ جام آنکھ ملتے ہی دو...
  6. فرحان محمد خان

    غزل : قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا - صفی لکھنوی

    غزل قفس وہاں ہے ہم آوارہ آشیانوں کا جہاں زمیں کا پتہ ہے نہ آسمانوں کا پھرا ہے رُخ مری جانب سے مہربانوں کا مزاج ہی نہیں ملتا مزاجدانوں کا بلندیوں کے لئے ہے عروج پستی سے زمین اوج دکھاتی ہے آسمانوں کا سنا جو قصۂ یوسف تو ہنس کے فرمایا ضرور اس میں تصرف ہے خوش بیانوں کا دل و دماغ کی رونق...
  7. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی ںظم : جسارت - رئیس امروہوی

    جسارت تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی اگر اس عہد کی تکمیل نہ کر سکتی تھیں دل کے احکام کی تعمیل نہ کر سکتی تھیں اپنے ماحول کو تبدیل نہ کر سکتی تھیں تم نے کیوں جراَتِ پیمانِ محبت کی تھی تم نے کیوں عہدِ محبت کی جسارت کی تھی میں نہ کہتا تھا کہ حالات سے مجبور ہو تم؟ رسم و دستور و روایات سے...
  8. فرحان محمد خان

    غزل : جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر - صفی لکھنوی

    غزل جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری...
  9. فرحان محمد خان

    غزل : دولت سے حسن حسن سے دولت خریدیئے - محبوب خزاں

    غزل جی چاہتا ہے کس نے کہا مت خریدیئے دولت سے حسن حسن سے دولت خریدیئے کچھ لوگ جی رہے ہیں شرافت کو بیچ کر تھوڑی بہت انھیں سے شرافت خریدیئے پھیلا ہے کاروبارِ مروت سو آپ بھی سب کی طرح کسی کی ضرورت خریدیئے اپنی پسند اپنے مقدر کی بات ہے صبحِ ازل سے شامِ قیامت خریدیئے گہرائیوں کی فکر میں کیوں مبتلا...
  10. فرحان محمد خان

    غزل : کسی نے یہ سبق تکوین کا آخر لکھا کیوں ہے - محب عارفی

    غزل کسی نے یہ سبق تکوین کا آخر لکھا کیوں ہے کہ جس کی ابتدا کیا ، متن کیوںکر ، انتہا کیوں ہے پسِ پردہ دھرا کیا ہے ، یہ ہے سب کھیل پردے کا تلاشِ قصر آئینہ نظر کا اقتضا کیوں ہے یہ صحرا بلبلوں کا ہے یہاں ہر خول خالی ہے خیالِ قیس ہر محمل کے پیچھے دوڑتا کیوں ہے بتِ معنیٰ سے فارغ ہے حرم کی تو...
  11. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی اُف رے ہُجوم نطق کہ خاموش ہو گئے - رئیس امروہوی

    عاطف بھائی آپ کی حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں
  12. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی اُف رے ہُجوم نطق کہ خاموش ہو گئے - رئیس امروہوی

    غزل اُف رے ہُجوم نطق کہ خاموش ہو گئے ہم غایتِ ظہور سے روپوش ہو گئے پایا جو مہر و ماہ میں ذوقِ سپردگی ذرّے تمام حلقۂ آغوش ہو گئے اے گوش وقت ! سُن کہ ادا کر رہا ہوں میں وہ لفظ جن کے حرف فراموش ہو گئے چھیڑا تھا ہم نے جسم کی خلوت میں سازِ جاں جب ساز چھڑ گیا تو گراں گوش ہو گئے ساقی کے...
  13. فرحان محمد خان

    غزل : مریضِ عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ - صفیؔ لکھنوی

    غزل مریضِ عشق کبھی اس قدر نہ تھا گستاخ ہوئے تلاشِ اثر میں لبِ دعا گستاخ حضورِ حسن ہے اے عشق یہ خلافِ ادب کہ ہو زبان ، دمِ عرضِ مدعا گستاخ حجابِ حسن ادب آموزِ عشق تھا پہلے وفورِ نشہ میں خود ہوگئی حیا گستاخ زمانے بھر سے تو بیگانگی کا ہے برتاؤ اداشناسوں سے ہے شوخیِ ادا گستاخ حریمِ ناز...
  14. فرحان محمد خان

    غزل : حافظؔ ہی کے زمانے کا دورِ قمر ہے آج - صفیؔ لکھنوی

    غزل خافظؔ ہی کے زمانے کا دورِ قمر ہے آج برپا جو ہر مقام پر اک شور و شر ہے آج بویا گیا جو زہر یہاں ڈیڑھ سو برس ہر بِس کی گانٹھ اک شجرِ بارور ہے آج بغض و حسد کا باغ ترقی پذیر ہے کل پُور بھر جو پیڑ تھا وہ ہاتھ بھر ہے آج وہ اب کہاں فرشتۂ روحانیت جو تھا انساں ہر ایک نفس کے زیرِ اثر ہے آج...
  15. فرحان محمد خان

    غزل : غافلو ! مرگِ مفاجات ہے انجامِ شراب - صفیؔ لکھنوی

    غزل غافلو ! مرگِ مفاجات ہے انجامِ شراب کیوں ہو اس درجہ اسیرِ ہوسِ جامِ شراب طائرِ ہوش کا پھسنا کوئی دشوار نہیں موجیں ساغر میں بچھائے ہوئے ہیں دامِ شراب بے پئے مست ہیں زُہاد ریا کار مگر رندِ مشرب میں فقط موردِ الزامِ شراب طاقِ نسیاں پہ چُنا شیشوں کو اُن کے میں نے جتنے میخانوں ہیں پائے...
  16. فرحان محمد خان

    رئیس امروہوی نظم : نذرِ عقیدت - رئیس امروہوی

    نذرِ عقیدت حیراں ہوں کہ اُس کی خدمت میں کیا نذرِ عقیدت پیش کروں؟ لو آج دعائے نیم شبی پیغامِ مسرت لائی ہے اُمید کی نازک سی بدلی خوابوں کے اُفق پر چھائی ہے اُس محوِ تغافل کو اے دل ! مدت میں مری یاد آئی ہے کافر نے کوئی رنگین سی شے تحفے میں طلب فرمائی ہے تاکید یہ ہے جس طرح بنے نذرانۂ خدمت پیش...
  17. فرحان محمد خان

    یاس منتخب رباعیات -مرزا یاس یگانہ چنگیزی

    (حجابِ معنی ) یوسف کو اس انجمن میں کیا ڈھونڈتا ہے ہنگامۂ ما و من میں کیا ڈھونڈتا ہے نیرنگِ تماشا ہے حجابِ معنی تصویر کے پیرہن میں کیا ڈھونڈتا ہے مرزا یاس یگانہ چنگیزی
Top